Common frontend top

آصف محمود


تحریک انصاف،امریکہ اور آزادی


کیا امریکہ سے آزادی کی جدوجہد امریکہ کی مدد سے آگے بڑھے گی؟ میری مجال نہیں ، میں تحریک انصاف کی خدمت میں یہ سوال رکھ سکوں ، تحریک انصاف اگر خود سے اس سوال پر غور کرنے پر مائل ہو سکے تو یہ اس کی میانہ روی ہو گی ا ور عین نوازش بھی ہو گی۔ تحریک انصاف کا بنیادی بیانیہ رومان میں لپٹاہے۔ اس کے مطابق تحریک انصاف امریکی دبائو سے آزادی چاہتی ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ جب جب دبائو آیا تحریک انصاف نے ایبسولیوٹلی کہہ کر اس دبائو کو جوتے کی نوک پر رکھا
منگل 26 مارچ 2024ء مزید پڑھیے

اسلامو فوبیا یا صلیبی جنگ؟

هفته 23 مارچ 2024ء
آصف محمود
کیا ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت کتنے برطانوی شہری اسرائیلی فوج اور انتظامیہ کا حصہ بن کر فلسطینیوںکے قتل عام میں مصروف ہیں؟ دنیا میں کوئی مسلمان کسی ایک ملک سے دوسرے ملک جا کر کسی لڑائی کا حصہ بنے تو اس پر شور مچ جاتا ہے کہ یہ دہشت گردی ہو رہی ہے ، یہی کام جب برطانوی شہری مقبوضہ فلسطین میں جا کر کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا ؟ ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ کیوں نہیں بنتا؟ ان پر برطانوی قوانین کیوںنہیں لاگو ہوتے ؟ کیا انٹر نیشنل
مزید پڑھیے


چڑیا کا عالمی دن

جمعرات 21 مارچ 2024ء
آصف محمود
چڑیا کا عالمی دن منایا جا چکا اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ ننھا پرندہ اب نظر کیوں نہیں آتا؟یہ کہاں چلا گیا؟ایک زمانہ تھا ہر سو یہ چڑیاں چہچہاتی پھرتی تھیں اور اللہ کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے تھے۔ آج یہ وقت آن پہنچا کہ دنیا اس ننھی مخلوق کا عالمی دن منا رہی ہے لیکن یہ چڑیا اب کہیں نظر نہیں آتی۔یہ پرندہ ہمارے گھر وں کا حصہ ہوتا تھا ہم نے اس کی قدر نہیں کی ، آج یہ نایاب ہوتا جا رہا ہے اور ہم بیٹھے اس کا عالمی دن منا رہے
مزید پڑھیے


پی ٹی وی کی بھی نجکاری کی جائے

منگل 19 مارچ 2024ء
آصف محمود
ہماری لڑکھڑاتی معیشت اگر پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو کیا یہ پی ٹی وی کے لنگر خانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ اگر دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جا سکتا ہے تو کیا پی ٹی وی کے سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں ہو سکتی؟پبلک پرائیویٹ پارٹنر سکیم کا بڑا شہرہ ہے تو کیا اس سکیم کا اطلاق پی ٹی وی پر نہیںہو سکتا؟ کیا عقل اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے کہ بجلی کے بلوں سے تیس پینتیس روپے ٹیکس کاٹ اس ادارے میں منظور
مزید پڑھیے


It's the economy, stupid

هفته 16 مارچ 2024ء
آصف محمود
نیم خواندہ معاشرے میں سیاست کے اپنے تقاضے ہوں گے ، جھوٹ ، بڑھکیں ، نعرے ، تماشے سب کچھ سکہ رائج الوقت ہو گا ۔لیکن کیا ہم اپنے اہل سیاست سے یہ درخو است کر سکتے ہیں کہ کم از کم معیشت کو بازیچہ اطفال نہ بنایا جائے؟ ابتدائی علامات اطمینان بخش ہیں۔ اس وقت جب آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے ، وزیر اعلی کے پی ، علی امین گنڈا پور وزیر اعظم شہباز شریف سے جا کر ملتے ہیں۔اس ملاقات کے بعد علی امین گنڈا پور کی طرف سے آنے والا
مزید پڑھیے



موسم روٹھ رہے ہیں

جمعرات 14 مارچ 2024ء
آصف محمود
موسم بدل رہے ہیں۔ موسموں کا وہ سارا نظام الاوقات تبدیل ہو رہا ہے جو صدیوں سے قائم تھا۔ سیاست پر لمبی اور لاحاصل بحثوں سے وقت ملے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ماحولیات سے جڑا چیلنج خوف ناک ہوتا جا رہا ہے۔ مارچ کا آدھا مہینہ گزر چکا اور جنگلوں میں پھول نہیں کھلے۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چیتر کی رت شروع ہو جائے اور جنگل پھولوں سے بھر نہ جائے۔ فروری کے آخری دنوں میں جنگل پھولوں سے بھر جاتا تھا۔جھیل کو جاتے رستے پر پھولوں کا قالین سج جاتا تھا۔ درہ جنگلاں میں
مزید پڑھیے


ہمارے مکیش امبانی کہاں ہیں؟

بدھ 13 مارچ 2024ء
آصف محمود
بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے جس معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں ، آج اسی معیشت کو نجکاری کے ذریعے سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی ہے جو اس سارے عمل سے عبرت حاصل کرے ؟یہ کہانی میں نے 2019 ء میں لکھی تھی ، وقت کا تقاضا ہے اس کہانی کو ایک بار پھر آپ کے سامنے رکھا جائے۔ ایک و قت تھاپاکستان کی معاشی اٹھان شان دار تھی۔ساٹھ کی دہائی تک ہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ بیچ میں بھٹو کا سوشلزم نہ آتا تو آج دنیا میں ہم بہت آ گے
مزید پڑھیے


معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری!

هفته 09 مارچ 2024ء
آصف محمود
انتخابات ہو گئے ، اب ہمیں معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور معاشی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہ آ جائے۔ اشرافیہ کا معاملہ الگ ہے ، وہ وسائل کے چشموں پر خیمہ زن ہے اور مزے میں ہے۔ عام آدم کا برا حال ہے ، اسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑنا ہے اور حالات نے اسے گھائل کر دیا ہے۔ اشرافیہ سیاست برائے سیاست کی متحمل ہو سکتی ہے لیکن عام آدمی نہیں۔ عام آدمی اب چاہتا ہے کہ معیشت کچھ بہتر ہو اور وہ اپنے
مزید پڑھیے


فلسطین :ہمارے شاعرا ور ادیب کہاں ہیں؟

جمعرات 07 مارچ 2024ء
آصف محمود
غزہ برباد ہو چکا ہے اور تیس ہزار لوگوں کے جسم مقتل میں پڑے ہیں لیکن نہ کوئی نظم لکھی گئی نہ کوئی نوحہ بلند ہوا، نہ کوئی فسانہ لکھا جا سکا نہ کوئی کہانی ۔سوچتا ہوں، ہمارے شاعر اور ادیب کہاں ہیں؟ حفظ مراتب میں قلم بھاری ہو رہا ہے ورنہ میں لکھنا تو یہ چاہتا تھا کہ یہ کہاں مر گئے ہیں؟ ہم پہلے دن سے تو یوں نامراد نہیں تھے۔ یہ سکوت مرگ نیا نیاہے۔ مشرقی یروشلم پر جب اسرائیل نے قبضہ کیا توہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اس غم کو مجسم کر دیا۔ آج ننھے
مزید پڑھیے


بھٹو ریفرنس : ایک باریک نکتہ

منگل 05 مارچ 2024ء
آصف محمود
بھٹو کیس پر صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہو چکی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ یہ خبر پڑھی تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ نظام انصاف کا عالم دیکھیے،صدر آصف زرداری نے یہ ریفرنس فائل کیا ، ان کا دور صدارت ختم ہوگیا مگر ریفرنس پر فیصلہ نہ ہو سکا۔ پھر ممنون حسین آئے ، وہ چلے گئے تو عارف علوی آئے اور اب یہ امکان دستک دے رہا ہے کہ آصف زرداری ایک بار پھر صدر بن جائیں گے ۔ کوئی ہے جو سوچے کہ ریفرنس پر فیصلہ آتے آتے اتنا وقت کیوں
مزید پڑھیے








اہم خبریں