Common frontend top

احسان الرحمٰن


’’بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘


ماحول گرم ہے البتہ بساط لپیٹی جا رہی معلوم ہوتی ہے۔ حریف پیشانی پر بل ڈالے،پلکیں جھپکے بغیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چالیں چل رہے ہیں ، وزیر آگے بڑھائے اور پیادے پٹوائے جارہے ہیں کبھی یہاں سے چال پر وہ مارا کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن چال چل کر مونچھوں کو تاؤ دے رہی ہوتی ہے ۔صورتحال پل پل میں بدل رہی ہے وہ لوگ جو وزیر اعظم ہاؤس کی انتظار گاہ میں صوفہ پچکائے ملاقات کے اذن میں گھنٹوں بیٹھنے کے بعد نامراد واپس جاتے تھے جن سے ملنا وقت کا ضیاع
جمعرات 31 مارچ 2022ء مزید پڑھیے

’’فرصت ملے تو چشم ندامت اٹھایئے‘‘

هفته 26 مارچ 2022ء
احسان الرحمٰن
میںکئی دن سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی اک لاش کی تصویر سے نظریں چراتا پھر رہا ہوں ،صحافی ہونے کے ناطے سوشل میڈیا پر نظریں ڈالے بنا گزارا بھی نہیں۔ حالات ہی ایسے ہیں کہ جانے کب کیا ہوجائے جب بھی سوشل میڈیا پرجاتا ہوں سنولائی ہوئی رنگت والا وہ چہرہ سامنے آجاتا ہے،سر پر بندھارومال ، ادھ کھلا منہ ،سوال لئے کرب ناک آنکھیں جیسے پوچھ رہی ہوں غربت کی سزا موت ہی ہے تو مجھے بہت پہلے ہی مار دینا چاہئے تھا ،مجھے روز روز جینے اور مرنے کے لئے کیوں چھوڑا گیا تھا۔یہ تصویر دیکھ کر
مزید پڑھیے


’’ ضمیر کی انگڑائی‘‘

اتوار 20 مارچ 2022ء
احسان الرحمٰن
یہ یکم اگست 2019کی بات ہے اسلام آباد کا موسم ہی حبس زدہ نہ تھا، سیاسی فضا میں بھی کافی گھٹن تھی ،حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے ایک بارپر سینگوں میں سینگ پھنسائے ہوئے تھے۔ایوان بالا کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی تھی، ایک طرف متحدہ اپوزیشن تھی جو ایوان بالا کے خوش گفتار چیئرمین صادق سنجرانی کو ان کی نشست سے ہٹا کر اپنے ساتھ ایوان میں بٹھاناچاہتی تھی اور دوسری جانب حکومت اور ان کے اتحادی تھے جو ہر قیمت پر صادق سنجرانی کے خلاف اس جمہوری بغاوت کو کچلناچاہتے تھے صادق سنجرانی صاحب
مزید پڑھیے


’’ وزیر اعظم صاحب !یہ تو کھیل کا حصہ ہے ‘‘

جمعرات 10 مارچ 2022ء
احسان الرحمٰن
سوچ رہا ہوں کہ کیا ہوگا ۔۔۔یہ سوچتے ہوئے بدقسمت اور بے نشاں قبر کے مکیں مغل شہزادے دارا شکوہ یاد آگیاجس نے 20مارچ 1615ء کو اجمیر شریف میں ہندوستان کے پانچویں شہنشاہ ،شہاب الدین محمد شاہ جہاں خرم کی دوسری اورچہیتی ملکہ ممتاز محل کے بطن سے جنم لیاتھا کہتے ہیں اس کی ولادت کے لیے شاہ جہاں نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر جا کر منت مانی تھی اس کے دادا شہنشاہ جہانگیر نے بڑی چاہ سے اس کا نام’’محمددارا شکوہ‘‘ رکھاتھا داراشکوہ اپنے والد شاہ جہا ں کا بڑالاڈلا تھا۔ شاہ جہاں کو اسکی دوری
مزید پڑھیے


’’ہمارے سوکنی سفارت خانے ‘‘

منگل 01 مارچ 2022ء
احسان الرحمٰن
جب کبھی دور پار سے آنے والوں سے ملاقات ہوتی ہے تو اپنا احساس محرومی اندرہی اندر غدر مچا دیتا ہے ایسی ہی کچھ کیفیت نثار بھائی سے ملاقات کے بعد ہوئی۔ نثار بھائی اور میں کراچی کے ڈی جے کالج میں ہوتے تھے،وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تک ’’ڈی جیرین ‘‘کی فہرست بنائی جائے تو سچ میں پوری کتاب مرتب ہوجائے۔ تب کراچی میں تعلیمی نظام کو گھن لگ رہا تھا لگ نہیں چکا تھا۔کالجوں میں پڑھائی کم اورطلبہ تنظیمیں مخالفین کی ٹھکائی زیادہ لگاتی تھیں لیکن ڈی جے کالج میں فرق یہ تھا کہ یہاں باقاعدہ کلاسز
مزید پڑھیے



’’لعل خان حاضر ہو۔۔۔‘‘

هفته 19 فروری 2022ء
احسان الرحمٰن
سولہ فروری کا ہنگامہ خیز دن وطن عزیز میں ایک اور خبر خیزدن تھا ۔خبروں کا سیلاب امڈا ہواتھا،ایک کے بعد ایک خبر آرہی تھی، منبع اسلام آباد کا پوش علاقہ ایف سیکٹر تھا جہاں مراد سعید صاحب کی شکایت پر سرکاری ہرکارے سرعت سے متحرک ہوئے۔ ایف آئی اے اسلام آباد میں ،ماحو ل گرم کر چکی تھی جس کے بعد سارا دن بریکنگ نیوز چلتی رہیں ۔سیلا ب کے ایک ریلے کے بعد دوسرا ریلا آتا رہا ،اپوزیشن نے بھی اس ساری صورتحال میں حکومت مخالف کڑوے کسیلے بیانات چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ،نیوز چینلوں کی سکرینوں
مزید پڑھیے


سانحات کی طویل سوگوار قطار

جمعرات 09 دسمبر 2021ء
احسان الرحمٰن
برطانوی تاریخ چرچل کے ذکر کے بغیر آگے نہیں بڑھتی چرچل پر آکر مورخ کا قلم کسی اڑیل گھوڑے کی طرح رک جاتا ہے۔ چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں اپنا دفتر کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کمرے میں منتقل کرلیا تھاایک صبح اسکا ماتحت دوڑتا ہواآیایا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں،جرمن طیارے خوفناک بمباری کر رہے ہیں، برطانیہ کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔چرچل بہت مضبوط اعصاب کامالک تھا اس نے اطمینان سے یہ سب سنا اورسگار کا طویل کش لیتے ہوئے برطانوی آرمی چیف کا پوچھانہ ائیر فورس چیف کو فون کیا
مزید پڑھیے


’’حلوہ پکاؤ۔۔۔‘‘

جمعرات 25 نومبر 2021ء
احسان الرحمٰن
پرانے زمانے کی بات ہے کہتے ہیں ایک ملک کے بادشاہ کا آخری وقت آگیا،سارے وزیر مشیر بادشاہ کے آس پاس جمع ہوگئے وہ سب متفکر تھے کہ اب ملک کیسے چلے گا ،بادشاہ کون ہوگا کہ بادشاہ کی کوئی اولاد نہ تھی سب اسی سوچ میں تھے کہ بادشاہ سلامت نے آخری ہچکی لی اور چل بسے ،بادشاہ کی آخری رسومات کے بعد سب سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے ،طے یہ ہوا کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی جو بھی شخص شہر پناہ میں داخل ہوگا وہ بادشاہ ہوگا ،دوسرے دن سارے وزیر مشیر اپنے بادشاہ
مزید پڑھیے


ہم وطنو! شاباش!

پیر 15 نومبر 2021ء
احسان الرحمٰن
ایسانہیں لگ رہا ہے کہ جیسے سینما پر ایک ہی فلم لگی ہوئی ہے جو اترنے کا نام نہیںلے رہی ،فلم بینوں کو بھی شاباش ہے کہ ان کا دل نہیں بھر رہافلم کا ہر شو کھڑکی توڑ ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے ایک عام آدمی آج جن مسائل پر ماتم کناں ہے تین دہائیاں پہلے بھی وہ انہی پراپنی چھاتی پیٹ رہا تھا کچھ اور عرض کرنے سے پہلے ایک کہانی سنئے کہتے ہیں۔ ایک بادشاہ کو اپنی بادشاہت کی فکر لاحق ہوگئی ،سبب رعایا کی بدحالی تھی ،کھیت کھلیانوں میں جو کچھ اگتا اس کے تین حصے
مزید پڑھیے


’’ انہا ں نوں کی پتہ…‘‘

منگل 02 نومبر 2021ء
احسان الرحمٰن
وہ درمیانی قدو قامت کا ایک عمر رسیدہ شخص تھا ۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگی ،میں بھی سڑک پر دوڑتی فراٹے بھرتی گاڑی والوں کی طرح جلدی میں تھا اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کو تھابلکہ سچ یہ ہے میں آگے جا چکا تھا لیکن اس سے پہلے میری نظر اسکے چہرے پر پڑی وہ بڑی امید سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میری نظریں اسکی نظروں سے ملیں اور بے اختیار بریک پر دباؤ بڑھ گیا۔ میں رک گیا وہ مجھے رکا دیکھ کر جلدی جلدی قدم اٹھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے میرے پاس
مزید پڑھیے








اہم خبریں