Common frontend top

سجاد میر


ریاست کو خطرہ ہے


خاکم بدہن‘کیسے لکھوں کہ ریاست پاکستان کو خطرہ ہے۔ عزت و وقار تو خاک میں مل گیا، اب اس کی سلامتی کی دعا مانگو۔ یقین کیجیے یہ بات گزشتہ چند روز سے میں نے کئی زبانوں سے اپنے اپنے انداز میں‘ادا ہوتے سنی ہے۔ خدا ہماری حفاظت فرمائے۔ ہم نے بھی کچھ کرنا ہو گا۔ کبھی کوئی تصور کر سکتا تھا کہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کا طیارہ اس طرح قرق کر لیا جائے گا کہ مسافر اس میں سوار ہوں گے اور وہ پرواز بھرنے کو تیار ہو گا کیا اس سے زیادہ ملک کی بے توقیری ہو سکتی
پیر 18 جنوری 2021ء مزید پڑھیے

کوئی چارہ کار ہی نہیں

هفته 16 جنوری 2021ء
سجاد میر
آج رسوائی کا ایک اور سامان ہو گیا۔ ہماری قومی پرچم والی پرواز فضائی کمپنی کا طیارہ مہاتیر محمد کے ملائشیا میں ضبط کر لیا گیا۔ ہم ایک اور بین الاقوامی مقدمہ ہار گئے۔ اس سے ہماری جو سبکی ہوئی اس نے کہیں کا نہیں چھوڑا، ہم پر پہلے ہی یورپی ممالک کے ہوائی اڈے علاقہ ممنوعہ ہو چکے تھے۔ ہم کتنے بین الاقوامی مقدمے ہاریں گے؟ابھی براڈ شیٹ کی گونج ہوائوں میں تھی کہ یہ دوسری خبر آ گئی۔ پی آئی اے کی تباہی کا سہرا تو اس حکومت کے سر جاتا ہے ۔براڈ شیٹ کا سارا الزام میں اس
مزید پڑھیے


مٹی بہت زرخیز ہے!

جمعرات 14 جنوری 2021ء
سجاد میر
میں ابھی ابھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی شاہراہ پاکستان پر واقع شاندار عمارت میں ایک پروقار تقریب سے لوٹا ہوں جہاں ہمارے پیارے بھائی رئوف طاہر کی یاد میں ایک ریفرنس منعقد تھا۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمان خصوصی تھے اور محترم جاوید ہاشمی ملتان سے سیدھا اس تقریب میں شمولیت کے لیے پہنچے تھے۔ جاوید ہاشمی کا تعارف ایک بزرگ سیاست دان کے طور پر کرایا گیا۔ کل جو شخص بھرپور جوانی کے ساتھ ایک طالب علم کے طور پر اس شہر میں ابھرا تھا آج اس کی بزرگی کا تذکرہ سن کر سب غم کی اس گھڑی
مزید پڑھیے


ہمارا رئوف طاہر

جمعرات 07 جنوری 2021ء
سجاد میر
بس یوں سمجھو ایک شخص ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلا گیا اور ہمیں اداس چھوڑ گیا۔ شامی صاحب کا فون آیا۔ سسکیوں کی آواز میں وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ رئوف طاہر‘ پھر چپ ہوئے ،اتنا کہا کیا ہو گیا۔ شاید دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ ان کے چلے جانے کی بات کریں‘ ان کے مرنے کی خبر دیں۔ وہ جیسا صحافی یا لکھاری تھا‘اس کے تذکرے تو ہوتے رہیں گے‘ مگر ہمارے لئے وہ ایک بہت ہی پیارا ساتھی تھا۔ میں ایسے متنوع مزاج کے بیسیوں لوگوں کو جانتا ہوں جن سے اس کے
مزید پڑھیے


نیا سال مبارک

هفته 02 جنوری 2021ء
سجاد میر
کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کے بعد عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ تاہم یہ تبدیلی جزوی ہوتی ہے۔ زندگی کے کسی ایک شعبے کے، کسی ایک حصے کے متعلق ہوتی ہے۔ مگر جو یہ سال گزرا ہے، اس نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ تہذیبی اقدار کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ جدید عہد کے انسان کو اپنی بے بسی کا یوں اندازہ ہوا ہو جیسا اس کورونا کی وبا نے کر دکھایا۔ اس نے اپنی
مزید پڑھیے



سیاست گری کے گُر

جمعرات 31 دسمبر 2020ء
سجاد میر
زرداری صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ میرا ان سے پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب ان کے خلاف آخری مقدمہ بھی ختم ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ بارہ تیرہ مقدمات تھے جو آہستہ آہستہ آہستہ نپٹتے جا رہے ہیں۔ میں نے اس پر کالم لکھا کہ ہم خوامخواہ اس شخص کے خلاف ہو گئے تھے۔ اسے تو اب مجید نظامی بھی مرد حر کہہ رہے ہیں۔ تو کیوں نہ میں بھی ہتھیار ڈال دوں۔ سو اعلان کرتا ہوں کہ اب کی بار عید پر زرداری صاحب کراچی جیل میں ہوئے تو ان سے ملنے ضرور جائوں گا۔ اگلے ہی روز ان
مزید پڑھیے


کئی چاند تھے سمر آسماں

پیر 28 دسمبر 2020ء
سجاد میر
آج میں ادھر ادھر کی چند یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ بعض لوگوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو بڑے لوگ تھے اور ان سے یادیں وابستہ ہیں۔ منیر نیازی‘ پروین شاکر‘ شمس الرحمن فاروقی اور بے نظیر بھٹو۔ چاہوں تو 25دسمبر کے حوالے سے اپنے قائد اعظم کو بھی یاد کر لوں۔ ایسے ہی آج کے حالات سے منہ چھپانے کو دل چاہتا ہے۔ لیکن ان یادداشتوں میں بہت سی خوبصورت دنیائیں چھپی ہوئی ہیں۔ تازہ ترین خبر تو شمس الرحمن فاروقی کی ہے جن کا ان دنوں ہی انتقال ہوا ہے۔ ان کے مرنے کی خبر سن
مزید پڑھیے


میرے خواب بکھرتے جاتے ہیں

جمعرات 24 دسمبر 2020ء
سجاد میر
ہمارے عسکری صاحب نے کہیں فراق گورکھپوری کا ایک قول نقل کر رکھا ہے کہ جس شخص کو سولہ سال کی عمر سے پہلے اکبر الہ آبادی کے شعر پسند آنے لگیں اس میں ضرور کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ بدقسمتی سے میرا شمار ایسے ہی خراب قسمت لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ میں اکبر آلہ آبادی کے شعر سولہ سال کی عمر سے پہلے پسند کرنے لگا تھا بلکہ ایسی ساری’’ خرافات ‘‘مجھے عزیز تھیں نہیں۔ اس سِن میں قطعات قریب پھٹکنے نہیں دینا چاہیے۔ پارسائی کے گنبد میں بند ایک پوری نسل ہے جو اس
مزید پڑھیے


ایک تازہ زخم

هفته 19 دسمبر 2020ء
سجاد میر
یہ ابھی دو ڈھائی دن پہلے سقوط ڈھاکہ کے سانحے کی یادیں دل کو چیر کے کھا گئی ہیں۔ اسی دن کئی برس بعد دشمن نے پھر وار کیا اور آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنایا۔ نشانہ اب بھی پرانے والا تھا۔ایسے میں بحث چھڑ پڑی کہ یہ جو بلوچستانی گاندھی عبدالصمد خاں کا بیٹا ہے۔ اس نے لاہور کے جلسے میں زندہ دلان لاہور پر کچھ اوچھے وار کئے ہیں۔ دل پھر چھلنی ہو گیا۔ لاہور کے جلسے کے اپنے طنطنے تھے۔ دونوں طرف سے بحث جاری تھی۔ لگتا تھا جمہوریت لوٹ آئی ہے۔ کیا دن تھے جب ایسے
مزید پڑھیے


مریم نواز کا امتحان

پیر 14 دسمبر 2020ء
سجاد میر
ابھی دو چار دن پہلے کی بات ہے کہ کامران خان نے ایک سوال پوچھا۔ میں نے اس پر پہلے کوئی خاص گہرائی میں غور نہ کیا تھا‘ تاہم بڑی روانی سے دوچار باتیں کہہ دیں۔ اب ان پر غور کرتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ اس بات کا گہرائی میں تجزیہ ہونا چاہیے۔ وہ سوال یہ تھا کہ مریم نواز کی مقبولیت کا سبب کیا ہے۔ ان کی نظر میں گویا اس وقت مسلم لیگ ہی کی مسلمہ لیڈر نہیںبن چکی ہیں بلکہ پاکستان کی سب سے مقبول اور موثر قائد ہیں۔ ایک سبب تو یقینا یہ
مزید پڑھیے








اہم خبریں