Common frontend top

سعد الله شاہ


ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکے


جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے آبلے بھی پائوں کے پھوٹ پھوٹ رو دیے اور پھر کہاں تلک ہم سحاب دیکھتے پیہم سفر نے ہمیں تھکا دیا۔’’اختتام سفر کھلا ہم پر وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ۔اور پھر ہماری تلاش بھی نہ پوچھیے اپنی پور پور میں باس ہے بسی ہوئی خار خار ہو گئے ہم گلاب دیکھتے۔اپنے اس عہد بے اماں میں ایک سربسراداسی ہے لوگ ترس گئے ہیں کہ کہیں سچائی کی شکل نظر آئے کہ کوئی خوش کن لمحہ ان کے ہاتھ میں آئے۔ میں نے ایک شعر پوسٹ کیا مجھ کو میری
جمعه 23 دسمبر 2022ء مزید پڑھیے

ہم نے سیکھا نہیں پسپا ہونا

بدھ 21 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
بے ربط کر کے رکھ دیئے اس نے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہی پاس بھی دیکھوں جو دل میں تو سمندر ہے موجزن لیکن لبوں پہ کھیلتی صحرا کی پیاس بھی یہ ساری باتیں اپنی جگہ کہ کون کہاںہے اور کس اعلیٰ سطح پر ہے مگر اے سعد کوئی شے بھی اضافی نہیں بنیں یہاں۔ زیور ہے اس زمین کا یہ عاجز سی گھاس بھی۔ آپ پرویز الٰہی کو کیا سمجھ بیٹھے تھے وہ پکی گولیاں کھیلتے رہے ہیں۔ سیاست میں وہ زرداری سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اچھے وقت
مزید پڑھیے


انتخاب اپنی خوبیوں پر لڑیں

منگل 20 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں بس یونہی خیال آیا کہ زندگی کی ہما ہمی اور رونق بھی اسی باعث ہے کہ دنیا میں ایک مسابقت ہے۔عالم اسباب میں کچھ کرنا تو پڑتا ہے پھر نتیجہ کسی کے ہاتھ میں کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا۔اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک خیال ضرور جڑا ہوا ہے بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا۔یہ توکشتی میں
مزید پڑھیے


ن لیگ بمقابلہ پی ٹی آئی

اتوار 18 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چپ تھے وہ سوچ کر کہ انہیں اختیار ہے جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے یہ تو خیر معرفت کی بات ہے یہاں تو انسان خدا بنے ہوئے ہیں’’ہن کہہ خوف بلاواں دا‘ سارا شہر خداواں دا‘‘ کشتی کنڈھے کہہ لگدی۔ نئیں سی موڈ ملاحواں دا۔کیا کریں یہی ہمارا المیہ ہے’’گر بولتا ہوں میں تو یہ فطری سی بات ہے۔۔ اگر یہ بستی دل والوں کی بستی ہے مگر دل اکیلا کہاں تک کام کرے۔ کیا کریں رنجش کار زیاں دربدری تنہائی اور دشمن بھی
مزید پڑھیے


سیاست اور فلیمنگ کی یادیں

هفته 17 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
لوگ طالب ہوں تو مطلوب نظر آتا ہے ورنہ کیا دعویٰ کہ محجوب نظر آتا ہے مجھ کو مارا ہے اسی ایک غلط فہمی نے میں سمجھتا تھا مجھے خوب نظر آتا ہے یہ سارے مغالطے ہی تو ہوتے ہیں جو لے بیٹھتے ہیں۔ حکومت میں آتے ہی سب کچھ بدلا بدلا نظر آنے لگتا ہے۔ آنکھوںمیں تیرنے والے سہانے اور سنہرے خواب نیندیں چرانے لگتے ہیں۔پہلے آپ کی حس جمال کی نظر دو اشعار۔ کون کہتا ہے کہ جادو نہیں برحق لوگو، میرا قاتل مجھے محجوب نظر آتا ہے۔ تم محلات میں بیٹھے ہو مسیحا بن کر وہ تو تاریخ میں مصلوب نظر
مزید پڑھیے



ہر ہاتھ کھینچتا ہے گریبان اور کا

جمعه 16 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
درد میں اور جو بہل جائے وہ طبیعت کہاں بہل جائے خشک پیڑیوں کی تالیاں سن کر زرد موسم نہ پھر بدل جائے ساتھ ہی ایک شعر ایک زمانہ یاد دلا گیا ’’کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے‘‘ اور پھر سعد دل بھی عجیب سی شے ہے کچھ نہ دیکھے جہاں مچل جائے‘‘ ۔ سامنے اخبار ہے۔سرخی آنکھوں میں آئی تو ہنسی آ گئی۔ شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں عمران نے بدنام کیا۔ملک کی خاطر اختلافات بھلائے جا سکتے تھے بالکل درست کہا وگرنہ منی بدنام ہوئی اور نہ اتنی بڑی خلیج درمیان آئی۔ ہم
مزید پڑھیے


نئے سیٹ اپ سے امید

بدھ 14 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے ایک لمحے کی مسافت ہی بہت ہوتی ہے ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے لگتا ہے محبوب کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گیا ہے۔ ویسے یہ بھی عجب یار ہے کہ عاشق اور محبوب کا منصب بدلتا رہتا ہے۔ وہ جو کل محبوب تھا آج وہ عاشق کو منا رہا ہے تو جگہ بدل چکی ہے۔ یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے کہ ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلمان ہوگیا۔ بہرحال بات ایسی بتانے کی نہیں دنیا کو۔ روپڑے ہم بھی خریدار تک آتے آتے۔
مزید پڑھیے


کس کس نے کس کو گھما رکھا ہے!

اتوار 11 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
اپنے ہونے کا ہی یقیں آئے وہ جو ملنے کو خود کہیں آئے رونے دھونے کا اہتمام کرو شام آئی ہے وہ نہیں آئے یہ انتظار بھی بہت بری شے ہے، بعض تو انتظار ہی میں بوڑھے ہو جاتے۔ وہ انتظار اور ہے جس پر رسا چغتائی نے کہا تھا ’’ہمیں اس کا جو انتظار رہا۔ عمر بھر موسم بہار رہا‘‘ میں تو اذیت ناک انتظار کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو حکومت کو عمران خاں کا رہا کہ کب وہ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد میں آئے اور اب کے جو انتظار ہے وہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا ہے مگر آغاز
مزید پڑھیے


وہ نہ ٹک کر بیٹھے گا اور نہ بیٹھنے دے گا

بدھ 07 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئینے کا خیال کیا یہ خیال اور ہے اور اقبال کچھ اور کہہ رہا ہے۔ وہ مقام اور ہے‘ وہ قیام اور ہے‘ وہ دوام اور ہے بلکہ اختتام اور ہے۔ تو بچا بچا نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ۔ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں۔ ہم تو خاک زاد و خاک
مزید پڑھیے


پرویز الٰہی کی ڈکٹیشن

منگل 06 دسمبر 2022ء
سعد الله شاہ
دن مشقت میں اگر تم نے گزارا ہوتا رات کا چین تمہیں ہم سے بھی پیارا ہوتا تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا یہ فقط باتیں ہی ہیں کہ تو نے اک بار ہمیں دل سے پکارا ہوتا ‘ وزیر اعظم نے آج کمال بات کی یہ جسے سمجھنے کے لئے کم از کم بقراط اور سقراط کی ضرورت ہے یہ وہی بات ہے جو ایک ڈرائی فوڈ بیچنے والے نے گاہک سے کہی تھی اخروٹ کھانے سے دماغ اور سمجھ بوجھ بڑھتی ہے ساتھ ہی اس نے گاہک کو اخروٹ کی گری
مزید پڑھیے








اہم خبریں