پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا
پھر اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا
ٹوٹا ہے دل کا آئنہ اپنی نگاہ سے
اب کیا شکستِ ذات کے اسباب دیکھنا
اور اس میں ایک نازک اور طرحدار شعر دیکھئے کہ ’’تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب۔ تہذیب اس کی دیکھنا آداب دیکھنا: جنوری آغاز ہو چکا اور موسم کی یخ بستگی ہاتھ پائوں کھولنے نہیں دیتی، خوابیدہ سی سفید صبحیں اور اداس سرمئی شامیں۔ لگتا ہے کہ کچھ روز ایسے ہی چلے گا۔ ہمیں تو 1997ء کا سال یاد آیا کہ دسمبر میں پورا مہینہ سورج نہ نکلا تب
بدھ 03 جنوری 2024ء
مزید پڑھیے
سعد الله شاہ
منیر نیازی کی 17ویں برسی
هفته 30 دسمبر 2023ءسعد الله شاہ
آنکھوں کے کٹوروں کو چھلکائے ہوئے رہنا
بھیگے ہوئے دامن کو پھیلائے ہوئے رہنا
جو آنکھیں سوالی ہوں اور خوابوں سے خالی ہوں
ان آنکھوں کی قسمت ہے پتھرائے ہوئے رہنا
اس غزل کا ایک اور شعر کہ بے فیض ہے یہ دنیا کیا اس سے طلب کرنا۔ اپنا ہی لہو پینا غم کھائے ہوئے رہنا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ منیر نیازی کہ جنہیں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی شاعری کا خان اعظم کہتے تھے کی 26 دسمبر کو 17ویں برسی تھی اور مندرجہ بالا غزل کے اشعار انہی کی نذر تھے کہ ان کی زمیں میں یہ خراج تحسین ہے۔ ویسے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ن لیگ اور استحکام
بدھ 20 دسمبر 2023ءسعد الله شاہ
گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا
یہ ایسا راز تھا جس پر وہی آنکھوں کا پردا تھا
میں گہری نیند سویا تھا مجھے بادل اٹھا لائے
میں اک ندیا کنارے پر کسی واپسی کا سپنا تھا
شاعر اپنے مشاہدات و تجربات ہی کو سخن آشنا کرتا ہے۔ ’’بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں۔ میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا‘‘ اور ’’اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے، مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا‘‘ اصل میں میں نے غالب کا ایک لاجواب شعر کئی بار پڑھا ’’حد
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ایک شعری اور تخلیقی کالم
اتوار 17 دسمبر 2023ءسعد الله شاہ
اس کا چہرہ جو نظر آتا ہے
چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے
ایسے آتا ہے خیالوں میں وہ
جیسے رستے میں شجر آتا ہے
اور کبھی کبھی سوچیں تو ایسے لگتا ہے ’’ہے پرندوں کی دعائوں کا اثر یہ جو پیڑوں پہ ثمر آتا ہے ہاں ہاں ایک اور شعر ہے زمانے سے وہ بڑھ کر سفاک جس کو جینے کا ہنر آتا ہے۔ آج دل میں خیال آیا کہ سیاست کو چھوڑ کر شعر کی بات کی جائے اور یہ جو شعر ہے یہ نہایت پراسرار عمل ہے میرا مطلب ہے تخلیق واقعتاً ایک وہبی سی شے ہے بالکل ایسا ہی عمل
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
هفته 16 دسمبر 2023ءسعد الله شاہ
کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا
ہم نے دنیا کی دکاں سے کاسہ سر بھر لیا
لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر
اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا
خیر اب تو جمال یار کی بات بھی نہیں کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، اور پھر ویسے بھی غم یار گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ وہی نہ اگر سر پھوڑنا ہی ہے تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو۔
بہرحال الیکشن کے انتظامات مکمل ہیں، ہو رہے گا کچھ نہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
نامعتبر موسم اور امید!!
جمعه 15 دسمبر 2023ءسعد الله شاہ
توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے
کون دیکھے گا تہہ آب نظارے سارے
نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو
اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے
پنکھ لگا کر اڑتے ہوئے وقت کو کون روکے مگر ایک احساس دامن گیر ہے کہ برف پگھل رہی ہے حاصل عمر وہی طفل ہے اک گریہ کناں۔ ہاتھ سے چھوٹ گئے جس کے غبارے سارے ۔کوئی پیش بندی کوئی اہتمام آئندہ کا مگر کہاں! دل کی ناآسودہ حسرتیں ایسے میں ہم سیاست کی بات کیا کریں کہ وہاں تو اقتدار و اختیار کی ہوس اسی طرح جوان ہے اور یہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے
بدھ 06 دسمبر 2023ءسعد الله شاہ
کس نے سیکھا ہے نقشِ پا رکھنا
پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا
وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر
اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا
اور پھر ’’پانیوں پر بہار اترے گی۔ تم وہاں نقش اک بنا رکھنا‘‘ تو صاحبو! میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا صرف محاورہ ہی نہیں کبھی کبھی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ آپ تواتر سے ویرانے میں بس چلیں تو وہاں اک راستہ بن جاتا ہے۔ ’’ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی۔ منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے‘‘ اس راہ کے مسافر ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ وہ اخوت والے ڈاکٹر امجد
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
منگل 28 نومبر 2023ءسعد الله شاہ
جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے
اور اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے
چپ تھے وہ سوچ کر کہ انہیں اختیار ہے
جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے
ایسا ہی ہے کہ ایک بے اختیاری ہے وہ جو خالد احمد نے کہا تھا یعنی پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد۔حلقہ اختیار سا کچھ ہے۔ پھر یوں ہے کہ گر بولتا ہوں میں تو یہ فطری سی بات ہے سوئے ہوئے نگر تو نگر بولنے لگے۔اپنی ہی چھیڑ چھاڑ یونہی منظروں کے ساتھ چھولیں جو شام کو تو سحر بولنے لگے۔
بات شروع کرتے ہیں نواز شریف کے بیان سے کہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی
اتوار 26 نومبر 2023ءسعد الله شاہ
ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی
توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے
کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے
سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے
رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے
اور ایک عجیب سا خیال دیکھئے ۔نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو، اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے ۔سچ مچ یہ دنیا جینے نہیں دیتی اور بعض اوقات تو مرنے بھی نہیں دیتی۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔یہ خدائی فوجدار رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ہیں انتہائی تخریبی سوچ جسے وہ تعمیری سمجھتے ہیں ایسے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
اقتدار کا حصول اور اصول!
هفته 25 نومبر 2023ءسعد الله شاہ
جتنی بھی رسوائی تھی
میں نے آپ کمائی تھی
سب نے جس کو شعر کہا
اندر کی شہنائی تھی
اور اسی روانی میں پڑھ لیں اس کو دیکھا تھا میں نے ۔آنکھ مری پتھرائی تھی اور پھر اس کی آنکھوں میں جھیلوں سی گہرائی تھی شبنم جیسے پتھر پر سعد جوانی آئی تھی۔ سوچتے سوچتے آخر کو۔ آنکھ مری بھر آئی تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ میں سخن سرائی سے ماحول بنایا ہے کہ بات تو بڑھائی جائے۔
صورت حال نہایت دلچسپ ہے کہ نواز شریف سے مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کا بتاتے ہوئے مولانا نے اپنا مافی الضمیر
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے