Common frontend top

مستنصر حسین تارڑ


گارسیا مارکیز کی بیوی اور ہماری بیویاں


ہمیں یہ تو تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ انگریزی زبان کا طوق ابھی تک ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے اور ہم اس طوق کو ایک گہنا ایک کینٹھا سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں، اس میں کچھ کلام نہیں کہ اگر آپ نے بیشتر دنیا سے کلام کرنا ہے تو انگریزی کے بغیر کام نہیں چلے گا اور اگر آپ نے دنیا بھر کے ادب اور تاریخ سے آگاہ ہونا ہے تو ان سب کے تراجم بھی انگریزی میں ہیں تو حضور ہمارے لیے انگریزی اس لیے بھی ضروری ہے۔ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیے اگر
بدھ 24 اکتوبر 2018ء مزید پڑھیے

یہودیت‘ التحریر سکوائر اور گارسیا لور کا

اتوار 21 اکتوبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
ویسے تو ماشاء اللہ پاکستان کو مختلف اداروں کے حوالے سے ایسے ایسے حسن کارکردگی کے نہیں حسن کرپشن کے تمغے مل چکے ہیں کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ کیا سٹیل ملز‘ کیا موجودہ پی آئی اے اور اب شنید ہے کہ یہ ’’تھرکول‘‘ منصوبہ بھی مخدوش ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کی یہ دریافت بھی سنتے ہیں کہ ثمر آور نہیں اور اربوں روپے اس گٹر میں بہا دیئے گئے ہیں۔ صحرائے تھر کے سفر کے دوران مجھے اس منصوبے کے کچھ شواہد دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک نیا شہر آباد ہورہا تھا اور صحرا میں ایک
مزید پڑھیے


پران نول کی خاک لاہور میں اڑتی پھرتی ہے

بدھ 17 اکتوبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
پران نول سے آخری ملاقاتیں آکسفورڈ کے لٹریری فیسٹیول کے دوران اسلام آباد میں ہوئیں۔ چونکہ ہم ایک ہی ہوٹل میں قیام پذیر تھے اس لیے آتے جاتے کہیں نہ کہیں آمنا سامنا ہو جاتا اور وہ ایک خالص لاہوریئے کی مانند نہایت بلند آواز میں مجھے پکارتا۔ موتیاں والیو کتھے جارہو او؟ کڑیاں نوں ملن جارہے او تے مینوں وی لے چلو۔ ایک روز کسی کالج کی لڑکیوں کا ایک غول فیسٹیول میں ادیبوں وغیرہ سے ملنے آیا اور میں ہوٹل سے باہر نکل کر اپنے ایک دوست کی کار میں بیٹھنے کو تھا جب بدقسمتی سے ان کے
مزید پڑھیے


پران نول…جس کے ساتھ ایک لاہور مر گیا

اتوار 14 اکتوبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
پران نول میرا ایک دوست جس کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ لاہور تھا۔ پہلا اور آخری عشق تھا تو شہر لاہور تھا جو کہا کرتا تھا کہ میں لاہور کا ہوں اور لاہور مجھ میں آباد ہے‘ پران وہاں ’’دیار غیر‘‘ میں مر گیا تو گویا اس کے ساتھ ایک لاہور بھی مرگیا۔ ہندوستان میں لاہور کا پرچم بلند کرنے والے اور پاکستان کے لیے ہمیشہ کلمہ خیر کہنے والے مرتے جاتے ہیں۔ پہلے بابا خشونت سنگھ رخصت ہوا اور وصیت کر گیا کہ میری راکھ میرے آبائی گائوں ہڈیالی میں لے جا کر دفن کی جائے کہ
مزید پڑھیے


گوشت خوری، بڑے غلام علی خان اور میری خالہ جان

بدھ 10 اکتوبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
دنیا جہان میں بلکہ ستاروں سے آگے بھی جو جہان ہیں جہاں جہاں مسلمان ہیں ان کی ثقافت، رسم و رواج اور خوراک وغیرہ بلکہ طرز تعمیر بھی اپنی سرزمین میں سے جنم لیتے ہیں، ان میں عقیدے کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں ہے لیکن ایک ایسی شے ہے جو سب مسلمانوں، چین ہویا جاپان، یامراکو، برازیل ہو یا ٹمبکٹو۔ ایک شے ان سب میں مشترک ہے اور وہ ہے گوشت خوری اور بے پناہ گوشت خوری۔ ہندوستان سے جو مہمان کبھی آیا کرتے تھے وہ ہمیشہ ہاتھ جوڑ کر کہتے تھے، مہاراج ہم تو ایک برس میں اتنا
مزید پڑھیے



فردوس مارکیٹ کے پلازے میں دفن خواب

اتوار 07 اکتوبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
میں روز وہاں سے گزرتا ہوں اور دکھی ہوتا ہوں۔ میں کڑھتا ہوں۔ فردوس مارکیٹ کے چوک میں فلم سٹار فردوس کی سابقہ رہائش گاہ کے عین سامنے جو کارنر ہے وہاں نوجوان سیاحوں کی ایک پناہ گاہ ہوا کرتی تھی جسے ’’یوتھ ہوسٹل‘‘ کہا جاتا تھا۔ پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس یوتھ ہوسٹل کے دروازے بند ہوگئے۔ کس نے دروازے بند کئے‘ سرکاری عمارت کو مقفل کیا؟ ’’نامعلوم افراد‘‘ نے۔ پھر ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ نہایت پردہ پوش رہے یوتھ ہوسٹل کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ کس کے حکم سے مسمار کیا جارہا تھا
مزید پڑھیے


سَرد خانے میں منجمد والدین اولاد کے منتظر

بدھ 03 اکتوبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
پچھلے دنوں ایک دیرینہ دوست یعنی پاٹے پرانے دوست امریکہ سے آئے کہ ان کے والد صاحب قدرے علیل ہو گئے تھے۔ ایک ہونہار فرزند کی حیثیت سے خبر سنتے ہی اڑتے ہوئے پہنچے۔ ویسے تو امریکہ سے سبھی اڑتے ہوئے آتے ہیں، پیدل تو نہیں آتے لیکن یہ دوست محاورے کے مطابق اڑتے ہوئے پہنچے۔ اباجی کے سرہانے دو ہفتے بیٹھے رہے، ابا جی نہ جاتے تھے نہ مکمل طور پر آتے تھے یعنی کبھی جان کے لالے پڑ جاتے تھے اور کبھی نہایت خشوع و خضوع سے ٹیلی ویژن پر آئٹم نمبر دیکھنے لگ جاتے تھے۔ میرے دوست
مزید پڑھیے


’’سامری کے بچھڑے کی مقدس پھوپھیاں‘‘

اتوار 30  ستمبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
قارئین میں طے کر چکا تھا کہ میں آج ’’کوئی بات نہیں پاکستان‘ شاباش افغانستان‘‘ کے عنوان سے حالیہ منعقد کردہ ایشیا کپ کے بارے میں ایک کالم باندھوں گا لیکن یکدم ہر جانب سے خبریں آنے لگیں کہ پاکستان کی دنیا بھر میں بہت بدنامی ہو گئی ہے تو اس بندھے ہوئے کالم کو بھینسوں نے کھول دیا۔ حالانکہ عام حالات میں ہمارے دیہات میں جب کسی کی بھینسیں چوری ہو جاتی تھیں تو کہا جاتا تھا کہ فلاں کی بھینسیں کھل گئی ہیں اور یہاں بھینسوں نے بہ نفس نفیس‘ میرا بندھا ہوا کالم کھول دیا۔ یعنی میں
مزید پڑھیے


پیوستہ رہ کیکر سے، امید بہار رکھ

بدھ 26  ستمبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
وہ جو معروف مصرعہ ہے ناں کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ تو یقین کیجئے اگر آپ اپنے مقامی، ہزاروں برسوں سے آپ کے دکھ سکھ میں شریک، شجروں کے ساتھ پیوستگی اختیار کریں گے تب ہی بہار کی امید رکھ سکیں گے۔ آپ اگر درآمد شدہ اجنبی درختوں سے پیوستہ ہوں گے تو وہ ہرگز آپ کی حیات میں بہار نہیں لائیں گے۔ مثلاً اگر آپ ایک یوکلٹپس کے درخت کو جپھا مار لیں گے تو وہ آپ کو بہار عطا کرنے کی بجائے آپ کا خون چوس جائے گا۔ آپ آگاہ ہوں گے کہ یہ درخت
مزید پڑھیے


’’اُچیاں لمیّاں ٹاہلیاں تے وِچ گُجری دی پینگ وے ماہیا‘‘

اتوار 23  ستمبر 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
ہم اتنے بودے لوگ ہیں کہ نہ ہم اپنی مادری زبان کی قدر کرتے ہیں نہ اپنی خوراک کی قدر کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے پرندوں‘جانوروں اور درختوں کی قدر کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مادری زبان کی قدر نہ کرنے والے صرف ہم پنجابی ڈھگے ہیں ورنہ پٹھان‘ بلوچ اور سندھی اپنی اپنی زبانوں کے عشق میں مبتلا ہیں اور پنجابی اپنی زبان سے شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں۔چلئے ڈاکٹر سید عبداللہ اور مختار مسعود ٹھیٹھ پنجابی ہونے کے باوجود پنجابی بولنا گناہ سمجھتے تھے ۔بات کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنا اردو لب و لہجہ
مزید پڑھیے








اہم خبریں