Common frontend top

مستنصر حسین تارڑ


زرد چینی شہزادیوں کی لاہور میں بہار


کیا ان دنوں اہل لاہور میں سے کسی نے غور کیا ہے۔ آس پاس نگاہ کی ہے کہ ہر سو ایک زرد قیامت آئی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان پر بھی عمل نہیں کرتے کہ غور کرو‘ فلاں شے میں تمہارے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ نہ جی اہل لاہور اور غور ۔ توبہ ۔ توبہ اپنے بارے میں خود ہی المشہور کر رکھا ہے کہ ہم زندہ دلان ہیں‘ ہاں اگر غور کرتے ہیں تو نہاری‘ سری پائے ہریسہ اور بونگ وغیرہ پر کرتے ہیں جنہیں کھا کھا کر ان کے دماغوں میں بھس بھر گیاہے(جی ہاں آج
اتوار 03 جون 2018ء مزید پڑھیے

’’ایک روزہ خور کے اعترافات‘‘

بدھ 30 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
کہاں وہ دن تھے کہ ہم بھی اکثر روزے رکھا کرتے تھے اور کہاں یہ دن کہ مدت ہوئی ہے روزے کو مہماں کئے ہوئے۔ حسرت ہے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو دو بجے دوپہر کے بعد’’ٹچ می ناٹ‘‘ ہو جاتے ہیں یعنی چُھونا نہ‘ چُھونانہ۔ روزہ لگنا شروع ہو گیا ہے اور ہم اس لیے بھی ان لوگوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب ہیں جو آج افطاری میں دودھ سوڈا پئیں گے ۔ پکوڑے ‘ سموسے چاٹ اور کباب کھائیں گے اور پھر پراٹھے تناول فرمائیں گے اور ہم روزہ خور ان کا
مزید پڑھیے


تجھے کس پھول کا کفن ہم دیں

اتوار 27 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
ایک روائت ہے کہ کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں اور میری بجھتی ہوئی اسی برس کے منظروں‘ محبتوں اور دکھوں کو دیکھنے والی آنکھیں تو بہت ہی کچی ہیں۔ میں رونے سے‘ آنسو بہانے سے اجتناب کرتا ہوں کہ ہر آنسو کے ساتھ میری آنکھوں کے دھاگے ادھڑتے جاتے ہیں اور مجھے آنسوئوں کے پار کچھ نظر نہیں آتا اور اگر وہ بچوں کے جنازے ہوں تو گویا وہ میری آنکھوں سے نکل رہے ہوتے ہیں۔ مجھے مر جانے والے بچے اچھے نہیں لگتے۔ وہ بہت بُرے ہوتے ہیں‘ کچھ لحاظ نہیں کرتے کہ کہیں پاکستان کے شہر
مزید پڑھیے


چاند نے ایک خنجر ہوائوں پر منتظر رکھ دیا ہے

بدھ 23 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
آپ جانتے ہی ہوں گے کہ میں دیگر لوگوں کی نسبت کچھ ابنارمل سا ہوں۔ میرا ذہن بھٹکتا رہتا ہے۔ ممکنات اور تصورات کے ویرانوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ میں اپنی حیات میں اورخاص طور پر اپنے ادب میں بہت کم سیدھے راستے پر چلا کہ میری جستجو مجھے ان راستوں میں پڑتی گلیوں میں جھانکنے اور کچھ دیر ان کے اندر سفر کرنے پر مجبور کرتی رہی اور یوں میں نے بہت کچھ ایسا عجب دیکھا کہ بعد میں مجھے بھی یقین نہ آیا کہ کیا واقعی میں نے وہ کچھ دیکھا تھا۔ کیا واقعی جب وہ مجھے ایک
مزید پڑھیے


لڑکی‘ قرطبہ چلی جائو‘ غرناطہ چلی جائو

اتوار 20 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
اندلس میں‘ قرطبہ میں‘ مسجد قرطبہ میں‘ پاکستانی عمر رسیدہ سیاح خواتین اور ان میں کچھ کے ہاتھوں میں ’’اندلس میں اجنبی‘‘ جس کے ورق پلٹ پلٹ کر پڑھتی تھیں کہ اس تارڑ نے مسجد قرطبہ کے ستونوں کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ جب ان میں سے ایک نے میری بیگم سے دریافت کیا جبکہ وہ نہ جانتی تھی کہ وہ میری بیگم ہے۔ پوچھا کہ کیا آپ نے تارڑ کی یہ کتاب پڑھی ہے تو میمونہ بیگم نے ناک چڑھا کر کہا تھا۔ یہ تارڑ میرا خاوند ہے اور اس نے زبردستی مجھے یہ پوری کتاب پڑھ کر
مزید پڑھیے



نواز شریف ہندوئوں کے بھگوان ہو گئے

بدھ 16 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
میں اپنے گزشتہ کالم ’’الحمرا کی کہانیاں اور اندلس میں اجنبی‘‘ کے تسلسل میں گارسیا لورکا کی شاعری کے حوالے سے کالم لکھ رہا تھا کہ اک سانحہ سا ہو گیا۔ ایک دھماکہ ہو گیا اور اس دھماکے نے پاکستان کی سلامتی اور عزت نفس کے درو دیوار ہلا کر رکھ دیے۔ میں نے سوچا کہ اندلس اور لورکا کی کہانی بعد میں بیان ہوتی رہے گی ذرا ادھر دھیان کر لوں کہ میرے بدن کے اندر بھی پاکستان کی جو ناقابل شکست فصیلیں ہیں۔ ان میں دراڑیں پڑتی محسوس ہونے لگی ہیں۔ میں عام طور پر سیاسی نوعیت کے
مزید پڑھیے


الحمرا کی کہانیاں اور اُندلس میں اجنبی

اتوار 13 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
بے شک یہ میری پہلی کتاب پہلا سفر نامہ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ تھا جس نے میرے لیے بھی غیر متوقع طور پر‘ مجھے حیران اور بے یقین کرتے ہوئے میرے لیے ادب میں کامیابی کے سب دروازے کھول دیے۔ بیسٹ سیلر ہونے کے علاوہ جب آج سے تقریباً نصف صدی پیشتر یہ سفر نامہ ماسکو یونیورسٹی کی پروفیسر گالینا ڈشنکو نے یونیورسٹی کے اردو نصاب میں شامل کیا تو ادب کے وہ دروازے بھی کھل گئے جو کم کم ہی کھلتے تھے جن کی چوکھٹوں پر مجھ سے کہیں بڑھ کر باصلاحیت اور تخلیقی ادیب پڑے رہے اور یہ
مزید پڑھیے


’’دیوار برلن اور غزہ کی دیوارِ گریہ‘‘

بدھ 09 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ

برلن کے ادبی ادارے لٹریری ورکسٹاٹ کے سیمینار میں ایک مہمان اعزاز کے طور پر میں اپنی تقریر کا آغاز کر چکا ہوں کہ خواتین و حضرات برلن میرے لیے نیا نہیںاور نہ ہی برلن کے لیے میں اجنبی ہوں۔1958ء میں سوویت یونین سے واپسی پر میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کا مہمان تھا تب برلن کو تقسیم کرنے والی کوئی دیوار نہ تھی۔ ہم مشرقی جرمنی سے ٹرین میں سوار ہوتے اور بلا روک ٹوک مغربی برلن چلے آتے۔ پھر مشہور زمانہ دیوار برلن وجود میں آ گئی کوئی بھی آر پار نہ جا سکتا تھا اور گولی
مزید پڑھیے


برلن میں ایم جے اکبر سے ٹاکرا اور ندا فاضلی

هفته 05 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ

جرمنی کی سرکاری ادبی تنظیم لٹریٹر ورک سٹاٹ کی خصوصی دعوت پر جب میں کینیڈا سے پرواز کرتا برلن پہنچا اور اپنی سکھ ہمشیرہ کے عطا کردہ لائٹر سے اپنا پہلا سگریٹ سلگایا، آس پاس نگاہ کی تو تقریباً ہر شخص کوٹ میں ملبوس، ہیٹ پہنے نہایت سنجیدہ شکلیں بنائے پھرتا ہے۔ یقینا ان کے خاندان میں کوئی فوتیدگی ہو گئی ہے اور سب ماتمی لباس میں اسے دفنانے کے لیے جا رہے ہیں۔ دراصل کینیڈا اور خصوصی طور پر جب آپ امریکہ سے یورپ آتے ہیں تو ایک دھچکا سا لگتا ہے۔ وہاں لوگ نیکروں، جینوں اور ٹی شرٹوں
مزید پڑھیے


چھیتی نال چَک لو ویر جی

جمعرات 03 مئی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ

 

وہ کیا ہے کہ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے۔ اور مجھے بھی ان دنوں دیواروں کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے البتہ ایسا نہیں لگتا کہ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے کہ ہم تو کب کے پاگل ہو چکے۔ ایک یونانی کہاوت میں کیا ہی سچائی ہے گویا آئندہ زمانوں کے حال بتاتی ہے اور کہاوت ہے کہ وہ جو اولمپس کی چوٹی پر مقیم متعدد خدا ہیں۔ جب وہ کسی قوم کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اسے پاگل کر دیتے ہیں۔ البتہ میں ان خدائوں
مزید پڑھیے








اہم خبریں