Common frontend top

ڈاکٹر طاہر مسعود


ایک مضطرب ادبی روح کی رحلت


افسانہ نگار خالدہ حسین سے جو جمعے کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں، صرف ایک ہی ملاقات ہو سکی۔ وہ بھی ان دنوں جب وہ کراچی میں تھیں اور پی ایف فائونڈیشن کالج میں پڑھاتی تھیں۔ ان دنوں میں روزنامہ جسارت سے وابستہ تھا اور اس کے ادبی صفحے کے لیے ادیبوں کے انٹرویو کیا کرتا تھا۔ خالدہ حسین کے افسانوں کی کتاب پہچان چھپ چکی تھی اور اس کی کئی کہانیوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ خصوصاً ان کی کہانی ’’ایک بوند لہو کی‘‘ جس میں انہوں نے غم سے بے حس ہوجانے والے
پیر 14 جنوری 2019ء مزید پڑھیے

کچھ باتیں سیاست سے ہٹ کے

جمعرات 10 جنوری 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
شہرہ آفاق روسی افسانہ نگار چیخوف نے ایک غریب کلرک کی کہانی لکھی ہے جس کے پاس ایک چیتھڑا کوٹ تھا‘ برسہا برس تک استعمال سے وہ اس قابل بھی نہ رہا تھا کہ پہنا جا سکے۔ کلرک نے تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر اتنی جمع کر لی کہ وہ کوئی ڈھنگ کا استعمال شدہ کوٹ خرید سکے۔ پرانے کوٹوں کے ٹھیلے پہ جا کر اس نے ایک کوٹ پسند کیا‘ رقم ادا کی اور پرانا کوٹ اتار کر نیا کوٹ زیب تن کر لیا۔ چلتے ہوئے اس نے اپنا پرانا کوٹ ٹھیلے پہ ڈال دیا کہ اب اسے کون
مزید پڑھیے


نجات کا راستہ

پیر 07 جنوری 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
روزانہ یہی ہوتا ہے۔ صبح سویرے اخبار کا مطالعہ پھر نہا دھو کر ناشتہ کرنا اور پھر دفتر کی طرف بھاگنا۔ دوستوں سے ملاقاتیں، صبح اخبار میں پڑھی ہوئی خبروں پر تبادلہ خیال، نیرنگیٔ سیاست دوراںپر تبصرہ، ملکی صورت حال پہ مایوسی کا اظہار، چائے کا کاروبار، باتیں،باتیں اور باتیں……روزانہ یہی ہوتا ہے۔ کبھی کوئی صبح ایسی طلوع نہیں ہوتی جو اپنے دامن میں امید اور خوشیاں لے کر آئے، وہی موت، ہلاکتیں، ٹارگٹ کلنگ، ڈرون حملے، حادثات، سیاست دانوں کے اختلافی بیانات، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، غرض کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ ہم یکساں شب و روز میں زندہ
مزید پڑھیے


اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

جمعرات 03 جنوری 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
پچھلا سال گولیوں، بم دھماکوں، شورشرابوں اور کہیں کہیں خوشیوں کے اڑتے غباروں کے درمیان بیت گیا، ویسے ہی جیسے پچھلے بہت سارے سال بیتے اور اپنے پیچھے سیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گئے مگر ہم نہیں سوچتے۔ شاید ہم سوچنا بھول چکے ہیں یا سوچنا چاہتے ہی نہیں۔ کیونکہ سوچنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ سوچتے ہوئے ہمارا سامنا اپنے آپ سے ہوتا ہے۔ ہم اپنے ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ شاید کچھ خودکلامی کی صورت ہوتی ہے جو تنہائی مانگتی ہے اور بھرے پرے شہر میں تنہائی کہاں؟ ہم
مزید پڑھیے


ایک سعید روح تھی‘ نہ رہی

پیر 31 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
جدید میڈیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے کے اصل خدمت گاروں کو نظر انداز کرتا اور تیسرے درجے کے لوگوں کو جو سیاست اور تجارت پر چھائے ہوئے ہیں‘ انہیں بڑھاوا دیتا ہے۔ حافظ ڈاکٹر احسان الحق ایک ایسی ہی اصیل شخصیت تھی جنہوں نے عمر کا بڑا حصہ درس و تدریس میں گزارا، اپنے علم سے تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھائی‘ اپنی پرسوز قرات سے سننے والوں کو مسحور کیا۔ بہ حیثیت مفتی رہنمائی کے لئے رابطہ کرنے والوں کو ایسی رائے دی جس سے یہ جھلکتا تھا کہ ہمارا دین فی الواقع
مزید پڑھیے



قائد اعظم اور پاکستان : دو معجزے

جمعه 28 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
مختار مسعود نے ’’آواز دوست‘‘ میں لکھا ہے کہ کسی قوم کو بڑی شخصیتیں انعام کے طور پر قدرت عطا کرتی ہے اور سزا کے طور پر روک لی جاتی ہیں۔ انیسویں صدی اور وسط بیسویں صدی میں کیسی کیسی نابغۂ روزگار ہستیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئیں‘ ان کے ناموں کی فہرست ہی مرتب کی جائے تو سوچنا اور یاد کرنا پڑے گا۔ آج صورت یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں دیکھو قد آور شخصیات کا کال ملے گا۔ اسے مختار مسعود نے قط الرجال سے تعبیر کیا ہے۔ محمد علی جناح جنہیں ان کی قوم قائد اعظم
مزید پڑھیے


دسمبر کے زخم

پیر 24 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
دسمبر اب رخصت ہونے کو ہے مگر وہ زخم بھرنے کا نام نہیں لیتے جو اس ماہ کے آتے ہی قلب و ذہن پہ ہرے ہو جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کا سفر کتنا درد بھرا اور جانگسل ہے۔ کتنی ہی کتابیں لکھ دی جائیں‘ کتنے ہی مضامین اور کالموں کے کالم سیاہ کر دیے جائیں مگر یہ زخم جو سولہ دسمبر کو لگا تھا کبھی نہیں بھرے گا۔ میں نے اسی ناپرساں زمین پر آنکھ کھولی‘ میٹرک تک کی تعلیم وہیں پائی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق وہیں پروان چڑھا اور 23مارچ 1971ء کا ملٹری آپریشن اور
مزید پڑھیے


کچھ پہلو تعلیم اور تعلیمی اداروں کے

جمعرات 20 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
موجودہ نظام تعلیم کا ایک بڑا نقص یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں تعلیم پر زور ہے اور تربیت کا فقدان ہے۔ ساتھ ہی تعلیم کے ضمن میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس میں اصرار حافظے پر ہے اور طلباء و طالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔ ہر چند کہ حافظہ بھی ذہانت کا حصہ ہے لیکن صرف حافظے پر زور دینا تعلیم کی مجموعی افادیت کو متاثر کرتا ہے۔ نئی حکومت پورے ملک میں ایک نصاب کو رائج کرنے کے لئے فکر مند ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محض نصاب
مزید پڑھیے


کچھ گزارشات وزیراعظم سے

پیر 17 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ایک نئی نویلی منتخب حکومت کو عوام کی نظروں سے گرانے اور اسے غیرمقبول بنانے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ سب ہورہا ہے۔ کبھی ڈالر کی قیمت بڑھا کر اور کبھی کسی اور طریقے سے۔ بلاشبہ نئی حکومت نا تجربہ کار ہاتھوں میں ہے لیکن اس حکومت کے ارادے نیک ہیں اور یہ ملک کو بدلنے کا عزم لے کر آئی ہے۔ اس نے پرانے اور فرسودہ نظام کی جگہ ایک نیا عادلانہ اور عوام دوست نظام لانے کی نیت کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا ہے۔ اربوں روپوں سے تعمیر کئے ہوئے پرائم منسٹر
مزید پڑھیے


باتیں شیخ صاحب کی

جمعرات 13 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
شیخ رشید مزے کے آدمی اور مزیدار سیاست دان ہیں۔ جب بولتے ہیں تو کھل کر بولتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں ہوں تو پروفیسر گوگیا پاشا کی طرح ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے اور وہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ سننے اور دیکھنے والے اش اش کر اٹھتے ہیں۔ خاموش رہنا تو انہیں آتا ہی نہیں اور بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کے وہ قائل نہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے اور بقول یوسفی وہ سلوک بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کرتے
مزید پڑھیے








اہم خبریں