Common frontend top

ڈاکٹر طاہر مسعود


ایک فکر انگیز کتاب


خورشید احمد ندیم سے ملاقات سے قبل ہی میں ان سے واقف تھا۔ کچھ تو ٹیلی وژن کے پروگراموں کے حوالے سے اور کچھ ان کے کالموں کی وجہ سے۔ ان کی شخصیت کا بہت عمدہ تاثر میرے قلب و ذہن پہ مرتسم تھا۔ پھر ان سے ملاقات ڈاکٹر شکیل اوج کے توسط سے ہوئی۔ میں نے انہیں ایک سنجیدہ باوقار لیکن شگفتہ مزاج پایا۔ جو لوگ سنجیدہ مزاج ہوں‘ ساتھ ہی علم سے گہرا لگائو‘ بالعموم ان کی شخصیت میں ایک قسم کی پیوست اور خشکی سی پائی جاتی ہے۔ اپنی ذات کی بابت حساسیت سی ہوتی ہے۔ کوئی
پیر 10 دسمبر 2018ء مزید پڑھیے

تذکرہ پرانے کالم نگاروں کا

هفته 08 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
گزشتہ روز خاور نعیم ہاشمی کے کالم میں ابراہیم جلیس کا تذکرہ پڑھ کر ابن انشاء یاد آ گئے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب آسمان اردو صحافت پر ایک سے بڑھ کر ایک کالم نگار ستاروں کی طرح جگمگاتے تھے۔ نصراللہ خاں ‘ مجید لاہوری‘ شوکت تھانوی ‘چراغ حسن حسرت‘ عبدالمجید سالک‘ انعام درانی اور دوسرے بہت سے۔ ان ہی میں سب سے روشن نام ابن انشاء کا تھا‘فکاہیہ کالم نگاری کا ایک تابندہ ستارا کہتے ہیں انہیں ‘کالم لکھنے کے لئے سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ قلم اٹھایا اور لکھتے چلے گئے۔ اردگرد دوستوں کی محفل جمی ہے۔ چائے
مزید پڑھیے


سیاست اور اثاثوں کا کھیل

بدھ 05 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
وطن عزیز میں جتنے شوق لوگ پالتے ہیں، ان میں مہنگا ترین شوق سیاست کا ہے۔ غریب غربا تو رہے ایک طرف متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے باصلاحیت افراد بھی اس شوق کے متحمل نہیں ہو پاتے۔ الاّ یہ کہ وہ اپنی صلاحیت کوپارٹی لیڈر کے پاس رہن رکھوادیں اور اس کے عوض پارٹی لیڈر ان کے گھرانے کے لیے دال دلیے کا مستقل بندوبست کردے۔ کچھ کا خیال ہے کہ سیاست شوق نہیں، ایک کاروبار ہے۔ ایک ایسا کاروبار جس میں سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے، ریٹرن بعد میں اسی لحاظ سے مل جاتا ہے۔ وہ زمانہ لد
مزید پڑھیے


کمیشن برائے اصلاحِ پولیس

پیر 03 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار بیانات دینے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ان کا فقرہ ایسا چست ہوتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے واہ واہ اور جس پر فقرہ جا کے لگتا ہے وہ آہ آہ کر کے رہ جاتا ہے۔آج کے اخبار میں انہوں نے پولیس کو اپنا مشق سخن بنایا ہے۔ فرمایا کہ پولیس کو شرم آنی چاہیے کہ گالیاں کھا کر بھی بدمعاشوں کی طرف داری کرتی ہے۔ ہماری پولیس تو ویسے ہی اپنی سست اور ناقص و خواب کارکردگی کی وجہ سے بدنام ہے۔ اسے کچھ بھی کہہ دیجیے اس کی
مزید پڑھیے


نئی دوستی، نئے تقاضے

هفته 01 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ جانا پاک ہند تعلقات کا اصولاً نیا موڑ ہونا چاہیے لیکن ایسا تو اسی وقت ہو گا جب مخصوص ہندوانہ ذہنیت بتدریج تبدیل ہوگی۔ اس ذہنیت کا سب سے بڑا مسئلہ تنگ نظری اور بدترین عصبیت ہے۔ جسے احساس کمتری نے جنم دیا ہے۔ تاریخی حقیقت تو یہی ہے کہ 1857ء کی جنگ آزدی مسلمانوں اور ہندوئوں نے مل کر لڑی تھی لیکن شکست کے بعد بہ قول سرسید ہندو گنگا جل میں نہا کر پوتر ہو گئے اورانتقام کا سارا ملبہ مسلمانوں پر آ گرا اور انہیں چن چن کر اسی طرح مارا
مزید پڑھیے



آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے!

پیر 26 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار اور عقل کو حیران کر دینے والی ترقی نے روایتی معاشرے کی ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اقدار ہی نہیں بدلیں وہ سب کچھ تبدیل ہو کر رہ گیا ہے جس پر پرانے معاشرے کا دارو مدار تھا۔ مثلاً کتاب کا معاملہ ہی دیکھیے۔ علوم و فنون کی ساری ترقی سچ پوچھیے تو کتاب ہی کی مرہون منت ہے۔ لیکن الیکٹرونک میڈیا کی مقبولیت نے کتاب کے جادو کو جو سر چڑھ کر بولتا تھا‘ قطعی طور پر ماند کر دیا ہے۔ مطبوعہ کتاب کی مانگ دن بدن کم سے کم تر
مزید پڑھیے


کچھ فہمیدہ ریاض کے بارے میں

هفته 24 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
پرانے بادہ کش ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں اور ان کے اٹھنے سے جو جگہ خالی ہوتی ہے اسے پر کرنے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ فہمیدہ ریاض جنہوں نے اپنی بے باکانہ شاعری سے ایک زمانے میں ادبی دنیا میں جو طوفان اٹھایا تھا، اپنی عمر طبعی پوری کر کے پیوند خاک ہوئیں۔ یہ افسوس کی بات تو تھی ہی لیکن اس سے زیادہ غم کی بات یہ بھی ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے شہر لاہور میں ان کی نماز جنازہ میں صرف تین ادیب و شاعر شریک ہوئے۔ فہمیدہ ریاض کی عمر کا بڑا
مزید پڑھیے


بیان کپتان وزیراعظم کا

پیر 19 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
معروف اطالوی انٹرویو نگار اوریانا فلاسی سے انٹرویو میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ مستقل مزاجی چھوٹے ذہنوں کی خاصیت ہوتی ہے۔ بڑے ذہن اور اس کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ اوریانا نے بھٹو صاحب پر وہی یوٹرن کا الزام لگایا تھا۔ اب ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم وہی کچھ فرما رہے ہیں جو بھٹو صاحب نے اپنے دفاع میں کہا تھا۔ وزیراعظم کے بقول ہٹلر اور نپولین کی ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ وہ یوٹرن نہ لے سکے۔ اگر وہ ایسا کرلیتے تو ناکامی ان کا مقدر نہ بنتی۔ اصل میں سیاست بدلتی ہوئی حقیقت
مزید پڑھیے


قانون شکنی کیوں؟

هفته 17 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
عروس البلاد کراچی میں ان دنوں تجاوزات اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ بازاروں، دکانوں اور دکانداروں کے نقشے بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ فٹ پاتھوں کی شکل و صورت نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کے پیٹ میں رہ رہ کر مروڑ اٹھتا ہے او رکسی نہ کسی علاقے کے بازاروں میں دھما چوکڑی مچتی ہے اور تجاوزات کے خاتمے کے نام پر وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے دیکھنے کو تماشائیوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے
مزید پڑھیے


کچھ باتیں کتابوں اور حکم رانوں کی

جمعرات 15 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ایک انوکھی اور دل چسپ تصویر کل ہم نے اخبار میں چھپی دیکھی اور دیر تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اس پر نہیں مسکرائیں یا سینہ کوبی کریں۔ تصویر کا منظر کچھ ایسا ہے کہ مرحوم مجید نظامی کے مردحُر، عوام کے مسٹرہنڈرڈ پرسنٹ اور مملکت بدنصیب کے سابق صدر(اب نام کیا لینا) کو سکھر کے سابق میئر اسلام الدین شیخ کے غالباً صاحبزادے ایک کتاب نہایت ادب سے پیش کر رہے ہیں۔ یہ کتاب پیش کنندہ کی اپنی تصنیف ہے اور سکھر کی تاریخ کی بابت ہے۔ آپ سوچیں گے اس میں ایسی کیا بات ہنسنے یا
مزید پڑھیے








اہم خبریں