Common frontend top

ہارون الرشید


انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں اپنا


کب تک کہیے، کب تک پکارتے رہیے۔ غالب ؔنے کہا تھا: حالِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلاؤں انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں اپنا جمہوریت نہیں یہ نوٹنکی ہے۔ ایک سستا اور گھٹیا سا تماشہ، کبھی جس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سیالکوٹ کے الیکشن میں یہ واضح ہوا اور اب لاہور کے حلقہ این اے 33میں آشکار ہے۔ سیالکوٹ میں پریزائیڈنگ افسر غائب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ حکمران جماعت نے ڈٹ کر دھاندلی کی۔درجنوں سیاسی شخصیات ملوث تھیں۔ پھر ایک دوسرے حلقے میں قاف لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک
جمعرات 02 دسمبر 2021ء مزید پڑھیے

اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو

بدھ 01 دسمبر 2021ء
ہارون الرشید
احساس اور ادراک شاید کچھ ہو چکا۔ بات وہی ہے: وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں۔ الفاظ کی نہیں، یہ عمل کی دنیا ہے اور پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے : اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں دانشور اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ ہم مسلمان پہلے ہیں یا پاکستانی۔ سوال مختلف ہونا چاہئیے۔ غالبؔ نے کہا تھا : بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا غالبؔ عظیم شاعروں میں سے بھی عظیم ترین تھے۔ با ایں ہمہ علمی اور اخلاقی
مزید پڑھیے


کب تک

منگل 30 نومبر 2021ء
ہارون الرشید

کب تک سیاسی پارٹیاں اس بے ثمر پارلیمانی نظام کے ساتھ گھسٹی چلی جائیں گی،ادبار کا جو خاتمہ نہیں کر سکتا۔ نہایت تیزی کے ساتھ سول ادارے جس کے طفیل دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں سید منور حسن مرحوم 2009ء میں جماعتِ اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو فاروق گیلانی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سرکاری افسر تھے۔ براہِ راست کوئی تعلق سیاست سے نہیں تھا لیکن بلا کے تجزیہ کار۔ یہی اخبارات
مزید پڑھیے


دعا

بدھ 24 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
درویش سے پوچھا: اس میں کیا بھید ہے۔ مرض کی دعا تو یہ ہے نہیں،پھر کارگر کیسے ہوئی۔ بولے: دعا گاہے القا ہوتی ہے۔ عمر بھر اب یہ پڑھتے رہو۔ پانچ دن کے بعد پٹی کھلی تو حیران رہ گیا۔ غیر حاضر دماغی تھی یا کچھ اور، اندازہ ہی نہیں تھا کہ انگوٹھا اس بری طرح ٹوٹا اور کچلا گیا ہے۔ دور تک ٹانکے لگے ہوئے۔ اتنے میں بتایا گیا کہ زخم کا معائنہ کرنے کے لیے سی ایم ایچ کے کمانڈنٹ جنرل شاہد حمید خود تشریف لائیں گے۔ حیرت ہوئی کہ دوادارو کا تعین تو ہو چکا۔ اب یہ
مزید پڑھیے


حادثہ

منگل 23 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
یہ ایک روشن دن تھا۔ ایک بہت ضروری ملاقات کے سوا سب چیزیں ڈھنگ سے انجام پائیں۔دفتر گیا، کالم لکھا اور بروقت ریلوے سٹیشن جاپہنچا۔ ایک حادثہ مگر منتظر تھا۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان ریل گاڑی کا سفر ہی آرام دہ محسوس ہوتاہے۔شام کو چلنے والی ریل کار کی نشستیں آرام دہ واقع ہوئی ہیں؛حالانکہ ان کا ڈیزائن ڈیڑھ سو برس پہلے بنایا گیا تھا۔ برصغیر کے لوگ آرام دہ فرنیچر کے تصور سے کم ہی آشنا تھے؛حتیٰ کہ بادشاہوں کے تحت بھی کبھی آرام دہ نہ تھے۔ دوسرے اداروں کی طرح ریلوے بھی تباہ حال ہے۔ غلام احمد
مزید پڑھیے



متبادل

جمعرات 18 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
عمران خان ناکارہ ہیں، بالکل ناکارہ۔ نجات چاہئیے، ضرور اس سے نجات چاہئیے مگر آئینی اور جمہوری طریق سے اور ایک بہتر متبادل کے لیے۔ ان کے لیے نہیں، جو ملک کو چراگاہ بنا دیں۔ ایک ہفتہ پہلے ہی نون لیگی دانشوروں نے کپتان کو گھر بھیج دیا تھا۔ نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ بھی سونپ دی تھی۔مفاد پرستوں اور اندھے پیروکاروں کے سوا عمران خان سے کس کو ہمدردی ہے۔ حکومت کے اچانک انہدام سے ملک کو مگر کیا ملتا۔ ہولناک عدمِ استحکام۔ عمران خان پر اعتراضات بیشتر بجا ہیں مگر شہدا کی زمینیں ہڑپ کرنے والے مولوی صاحب؟
مزید پڑھیے


نوٹنکی

بدھ 17 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
وہ اور لوگ تھے۔ وہ احساس،درد اور شعور رکھتے تھے۔ ہم غلام‘ ذہنی غلام۔ آزادی مل گئی باطن میں وہی اسیری۔ یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر دل بھی کسی کا نام تھا،غم بھی کسی کی ذات تھی عدلیہ کا حال پہلے ہی پتلا تھا۔ دنیا بھر میں 120ویں نمبر پر۔ اب کیا اسے دفن کرنا مقصود ہے؟ ایک آدھ نہیں، تقریباً سبھی اس کے درپے ہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ شریف خاندان بھی عدل کا علمبردار ہوگیا ہے۔ مجسٹریٹ کی سطح سے عدالت عظمیٰ تک ایک ہزار قاضیوں کی کمی ہے۔ 2007ء میں جسٹس افتخار چوہدری
مزید پڑھیے


سب کے سب؟

منگل 16 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
کیا یہ لوگ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے جائیں گے؟یہ سب کے سب؟ ایسا برسا ٹوٹ کے بادل۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان سااٹھا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو بہا لے جائے گا۔ بِس کی گانٹھ ووٹ گننے کی مشین‘ای وی ایم ہے۔یہ اسٹیبلشمنٹ کو گوارا ہے اور اپوزیشن نہ حلیفوں کو۔اسٹیبلشمنٹ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے اور حلیفوں کی بھی۔ایک سنہری موقع سندھ کی سیاسی اپوزیشن‘جی ڈی اے یعنی دیہی سندھ کے حلیفوں‘ایم کیو ایم اورچودھری برادران کو ملا ہے۔نظر انداز کئے گئے لوگ اپنا حصہ اب لے کے رہیں گے۔ملاح کی کشتی طوفان میں
مزید پڑھیے


اقبال ؔ

بدھ 10 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
ایسی جسارت، ایسی جسارت؟صرف اقبال ؔ ہی ایسا کر سکتے تھے۔اس لیے کہ اپنی ہستی اور اپنی خاک سے اوپر اٹھ گئے تھے۔ زمین پر کہاں، وہ تو افلاک پر جیے۔ کرسی موجود تھی اور یوں تو منکسر مزاج مفکر کے پلنگ پر بھی براجمان ہو سکتے۔پنڈت جواہر لعل نہرو فرش پہ بیٹھ گئے۔ جواہر لعل کی شخصیت کا یہ پہلو دلکش تھا کہ اہلِ علم کے سامنے بچھ جاتے۔ ایک بار ابو الکلام سے ملنے گئے تو انہوں نے مصروفیت کا عذر کر کے ٹال دیا۔ وزیرِ اعظم نے برا نہ مانا۔ عربی زبان کا ایک مخطوطہ ہاتھ
مزید پڑھیے


ہر لحظہ نیا طورنئی برق تجلی

منگل 09 نومبر 2021ء
ہارون الرشید
پڑھیے اور دیکھیے کہ غلامی سے نجات میں کیسی بے پایاں مسرت ہے‘کتنی سرخوشی ہے ۔ہر روز ایک نیا جہاںہر روز ایک نیا افق: ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے کبھی محبت بھی بلا بن جاتی ہے۔خالد مسعود خان کی کتاب’’زمستاں کی بارش‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کلاسرہ صاحب نے خاکسار کے دیباچے کا حوالہ اس طور دیا کہ ایک طوفان سا ہے۔ فرمائش پہ فرمائش چلی آتی ہے۔یہاں مصروفیت کا یہ عالم کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں۔غالب نے کہا تھا: ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تیری عادت ہی سہی حال اپنا یہ
مزید پڑھیے








اہم خبریں