مینار پاکستان گرائونڈ میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا۔ اس میں کچھ مزید اضافہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ البتہ اس بحث کو جس طرح مختلف انتہائوں میں تقسیم کر کے بے معنی بنا دیا گیا ہے، اس پر کچھ کہناچاہتا ہوں۔ گریٹر پارک کا یہ واقعہ دردناک اور افسوسناک ہونے کے ساتھ ہلا دینے والا بھی تھا۔ ایسے بڑے دھچکے کے بعد قوم کو چند نکات پر یکسو ہوجانا چاہیے تھا، اس کے بجائے ہم فیمنزم کی غیر ضروری بحث اور بے سمت نظریاتی لڑائیوںمیں الجھ گئے۔ یہ مرد اور عورت کے حقوق کا جھگڑا نہیں ۔ یہ رائٹ ونگ اور لبرلز کے مابین دنگل بھی نہیں تھا۔یہ لاہوریوں کو پوتر ثابت کرنے اور باہر سے آئے ہوئے غیر لاہوریوں پرالزام عائد کرنے کا معاملہ بھی نہیں ۔ محرکات کا تجزیہ کیا جائے مگر بلیم گیم نہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک خاتون کولاہور شہر کے سب سے اہم اور مشہور مقام پر خوفناک قسم کی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی سو لوگوں نے خاتون کو دبوچ لیا، انہیں نوچا، کھسوٹا، بھنبھوڑا اور انہیں بمشکل وہاں سے نکالا جا سکا۔ ان لفنگوں نے دیدہ دلیری ، بے شرمی اور سفاکی سے یہ سب کچھ کیا۔ ہرشخص کے گھر ، خاندان میں بچیاں ہیں۔ جو بدنصیب بیٹیوں سے محروم ہیں، ان کے بھی بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کے گھر بچیاں ہوں گی۔ یہ سوچ کہ خدانخواستہ اس جگہ میری اپنی بچی ہو سکتی تھی ، اس پر کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظلم ہوا ، شدید ظلم۔ ایسا کرنے والے درندوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے ۔ ایسی کہ آئندہ کوئی اس طرح کا جرم کرنے کی جرات نہ کر سکے ۔وزیراعظم عمران خان اور ملک کے بہت سے قانون دان ، دانشورریپ کرنے والے مجرموں کو نامرد بنانے کی سزا دینے کے حق میں ہیں۔ اس حوالے سے کوئی قانون بھی بنایا گیا تھا۔ اگر وہ نافذ العمل ہے تو ایسی ہراسمنٹ کرنے والوں کو بھی سرجری سے اختہ کر کے نامرد بنا دینا چاہیے ۔ صرف یہی ایک سزا ایسی ہے جو ہمارے معاشرے میں کسی بھی مرد کو ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔میرے خیال میں اس ظلم اور زیادتی کی غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے، کسی اگر، مگر ، چونکہ ،چناچہ ، البتہ ، اگرچہ کے بغیر۔ میں نے اپنی فیس بک وال پر اس حوالے سے وِکٹم بلیمنگ کرنے والوں کو ان فرینڈ اور بلاک بھی کیا ہے ۔ میں قارئین کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہوں۔ متاثر ہ خاتون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک ٹک ٹاکر ہیں جو عامیانہ ویڈیوز بناتی ہیں، انہوں نے اس واقعے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور ایک خاص انداز میں ہمدردی بٹور کر لائیکس لئے اور فالورز بڑھا لئے۔ اس قسم کی باتیں کرنا مناسب نہیں۔ متاثرہ خاتون نے ماضی یا حال میں جیسی بھی ویڈیوز بنائی ہوں، اس سے قطع نظر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہوگیا ہے کہ ان کے جسم پر نوچنے، کھسوٹنے کے متعدد نشانات اور خراشیں ہیں۔کسی ایک فرد یا ہجوم کو یہ حق قطعی نہیں دیا جا سکتا کہ وہ کسی(معیاری، غیر معیاری)وی لاگر یا ٹک ٹاکرپر جبر کرے، ہراسمنٹ کا نشانہ بنائے۔خاتون نے مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر ہجوم سے کھچا کھچ بھرے گرائونڈ میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کی غلطی کی، مگر کیا اس کی ایسی بھیانک سزا بنتی ہے؟اندازے کی غلطی انسان سے ہوتی ہے۔ وی لاگر کوشش کرتے ہیں کہ عوامی مقامات پر لوگوں میں ویڈیوز بنائیں، اس سے حقیقی ٹچ آتا ہے ۔بدقسمت خاتون نے بھی ایسا ہی سوچا ہوگا، مگربدترین نتائج نکلے۔ یہ کہنا نامناسب ، غلط اور تکلیف دہ ہے کہ ایسی خاتون کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ اللہ رحم فرمائے، ایسا وقت کسی کو بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے۔ جب وقت بدلتا ہے توایسی آزمائش سات پردوں میں لپٹی پوتر، پاکیزہ خواتین پر بھی وارد ہوسکتی ہے۔ ظلم ، زیادتی اور ہراسمنٹ کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی بنانی چاہیے۔ کسی کو بھی ایسا کرنے کی قوت اور ہمت نہ ہوسکے۔ اگر یہ خوفناک رجحان آگے بڑھا تو پھر اپنے مردوں کے ساتھ چلنے والی عبایہ والی خواتین بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گی۔ رائٹ ونگ کے لوگوں، خاص کر مذہبی سوچ رکھنے والے جذباتی نوجوانوں کو یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اہل مذہب کو مردوں خاص کر نوجوانوں کو یہ بات بار بار سمجھانا ہوگی کہ قرآن نے انہیں غص بصر یعنی آنکھیں جھکا دینے کا حکم دیا ہے اور بدنظری اسلام میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ بعض روایات میں اسے آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے۔ یہ کہنا تو صریحاً تہمت اور سنگین الزام تراشی ہے کہ خاتون نے یہ ڈرامہ خود رچایا اور اب وہ ایکسپوز ہوگئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کون سوچ سکتا ہے؟ کوئی طوائف بھی اپنے آپ کو نوچنے کھسوٹنے کے لئے ہجوم کے حوالے نہیں کر سکتی۔ یہ خاتون ایک باعزت پیشے نرسنگ سے وابستہ ہیں،ان کی ویڈیوز کے معیار اور سنجیدگی پر تنقیدکی جا سکتی ہے، مگر ایسا ہزاروں لاکھوں خواتین ، بچیاں کر رہی ہیں۔بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی دیکھا دیکھی فنی ویڈیو بنانے کے چکر میں بے سروپا ویڈیوز شوٹ کر لیتی ہیں۔ مذہب ہمیں حسن ظن سے کام لینا سکھاتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جب کسی حادثے یا واقعے کا تجزیہ کریں تو اس میںسرزد ہونے والی بے احتیاطی کا بھی ذکر آتا ہی ہے۔اصلاح احوال کا مشورہ وِکٹم بلیمنگ نہیں۔مثال کے طور پر میں اپنی بیٹی کو کبھی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ اکیلی چودہ اگست کو مینار پاکستان کے گرائونڈ جائے ۔ جس سوسائٹی میں رہتے ہیں اس کے پارک میں بھی اکیلا بھیجنے کے بجائے اس کے بھائیوں کو ساتھ بھیجوں گا یا خود جائوں گا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کیسے حالات ہیں اور کس طرح لفنگوں کے جتھے ان دنوںمیں باہر نکلے ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ چودہ سال پہلے سٹریٹ کرائم ہوا، پرس کے ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی گیا۔اس کے بعد سے کبھی کارڈ بٹوے میں نہیں رکھاکہ دفتر سے واپسی پر رات ہوجاتی ہے۔ ہم ذاتی زندگی میں اپنے ، اپنے پارٹنر، بچوں کے لئے ایسی احتیاطیں کرتے ہیں۔ میں اپنی فیملی اورقریبی جاننے والوں کی بچیاں جو ہماری بھی بیٹیاں ہیں، انہیں ضرورت پڑنے پر ٹوک دیتا ہوں کہ گھر کا لباس اور ہے، بازار وغیرہ جانے کے لئے زیادہ مناسب ، ساتر لباس پہننا چاہیے۔ اسی طرح اگر خواتین اکیلی ہیں تو رات کے بجائے دن کا سفر کریں اورلباس وغیرہ میں محتاط رہیں۔ یہ پریکٹیکل باتیں ہیں، ہر کوئی ان پر عمل کرتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے ہماری فیمنسٹ لابی ایسے کسی مشورے کونہایت جارحانہ انداز میں رد کر دیتی ہے۔ ’’پدرسری نظام‘‘ کی رٹ ختم ہی نہیں ہوتی۔یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک گنجان ، پرہجوم سماج میں صرف مردوں پر قوانین نافذ ہوں؟ تمام تر احتیاط اور شریعت کی پابندی مرد کریں۔ وہ اپنی آنکھیں جھکائیں، بند کر لیں یا پھوڑ لیں اور خواتین جو مرضی پہنیں، جو دل چاہے کریں ، ہر قسم کی حفاظتی تدابیر کے پرخچے اڑائیں اور خدانخواستہ کچھ غلط ہوجائے تو پھر اپنی غلطی ماننے کے بجائے تمام ملبہ مردوں پر ڈال دیا جائے۔ یہ بھی ناانصافی ہے۔ یاد رہے کہ میں قطعی ریپ یا ہراسمنٹ کرنے والوں کا دفاع نہیں کر رہا ۔ میرے نزدیک تو ان بدبختوں کو نامرد بنا دینا چاہیے ۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اپنی بچیوں کو محفوظ بنانا ہے تو ہمیں کئی پہلوئوں پر کام کرنا ہوگا۔ کھلے پھرنے والے درندوں کے ناخن کاٹے جائیں، زیادتی اور ظلم کا دفاع یا تاویل ہرگز نہ ہو، اس کے ساتھ مگر خواتین کو بھی تربیت ، احساس ذمہ داری دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہو کہ ہمارے سماج میں کیا پہنا اوڑھا جاتا ہے ، اسلامی، مشرقی اخلاقیات کیا ہیں اورشریعت نے مردوں کے ساتھ عورتوں پر بھی کچھ پابندیاں لگائی ہیں؟ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر مرد جنسی مریض یا درندہ نہیں اور مرد صرف نوجوان لڑکا ہی نہیں ہوتا۔ باپ ، خاوند اور بیٹا بھی مرد ہے۔ ہر نوجوان کسی نہ کسی عورت کا بیٹا ہے۔ بیس بائیس کروڑ آباد ی میں دس گیارہ کروڑ مرد ہیں ، ایسے افسوسناک واقعات میں ملوث بدقماش افراد کی تعداد دس لاکھ میں ایک بھی نہیں بنتی ہوگی۔ایسا کہنا بھی غلط ہوگا کہ کراچی یا کوئی اور شہر محفوظ جبکہ لاہور میں جنسی درندے ہیں۔ لاہور سوا کروڑ آبادی کاشہر ہے، ایسے کتنے واقعات یہاں ہوتے ہیں؟روزانہ ہزاروں لاکھوں خواتین اپنے دفاتر، تعلیمی اداروں، بازاروں میں جاتی ہیں، کیا ہر ایک غیر محفوظ ہے؟ ایسا نہیں۔ ہمیں اپنے سماج میں موجود خامیوں اور کمزوریوں سے آنکھ بھی نہیں چرانی چاہیے اور خوفناک مبالغے سے بھی گریز کیا جائے۔ بہت سی چیزیں غلط ہیں، انہیں ٹھیک کرنا چاہیے۔ مینار پاکستان سانحہ اوربعض دیگر واقعات میں کمزور انتظامی کنٹرول ظاہر ہوا ہے۔ اگر پولیس اپنا کام کرے تو یہ لفنگے منہ چھپائے پھریں۔ گھروں میں تربیت کا نظام پھر سے بنانا ہوگا۔ مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ مردوں کے ساتھ خواتین میں بھی یہ کام کرنا ہوگا۔مردوں کے بعض تصورات بدلنے والے ہیں ، چند ایک باتیں خواتین کو بھی سیکھنا اور سمجھنا ہوں گی۔ حرف آخر یہ کہ ہم اپنی بچیاںکو ضرورت پڑنے پر بھی باہربھیجتے احتیاط کرتے ہیں کہ ماحول ٹھیک نہیں۔ اس ماحول کو مگر ٹھیک بھی تو کرنا ہے کہ بچیاں پرسکون اورخود کو محفوظ محسوس کرتے ہوئے اپنی ضروریات کے لئے باہر نکل سکیں۔