الیکشن سے قبل ہی اسے متنازعہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ افسوس! اس مہم کی قیادت نون لیگ کررہی ہے جو مرکز اور پنجاب میں حکمران ہے ۔ ان کی مرضی سے نگران حکومت قائم ہوگی اور الیکشن کمیشن بھی اس کے مخالفین کا قائم کردہ نہیں ۔ حال ہی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فرمایا کہ الیکشن ’’ خلائی مخلوق‘‘ کرائے گی۔میاں نوازشریف اور مریم نواز بھی الیکشن سے قبل دھاندلی کی دھائی دے رہے ہیں ۔وہ برملا کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو نادیدہ قوتیں تقسیم کرانے کی ذمہ دار ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ عمران خان کا وزیراعظم بننا بدقسمتی ہوگی اور ریاستی ادارے الیکشن چرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسفندیارولی اور محمود خان اچکزئی نے ابھی تک اس طرح کے بیانات جاری نہیں کیے لیکن شنید ہے کہ اگلے چند دنوں میں وہ بھی ’’خلائی مخلوق ‘‘ کے خلاف نبردآزما ہوں گے۔میڈیا میں ان پارٹیوں کے حامیوں نے بھی چیخ وپکار شروع کررکھی ہے کہ نوازشریف کو راستے سے ہٹا کر اگلے الیکشن میں عمران خان کا راستہ صاف کردیاگیاہے۔ اس نوع کے بیانات ملک کی سلامتی اور سیاسی استحکام کے لیے نیگ شگون نہیں ۔ ان سے اندازہ ہوتاہے کہ اگر الیکشن کے نتائج نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کی منشا کے برعکس آئے تو وہ الیکشن تسلیم کرنے سے انکار دیں گی ۔ ممکن ہے وہ نئی قائم ہونے والی حکومت کے خلاف مشترکہ سیاسی محاذ تشکیل دے کر اسے گرانے کی کوشش کریں۔1970ء اور 1977ء میں دومرتبہ ایسا ہی تلخ تجربہ کیاجاچکا ہے۔شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت تو حاصل کرلی لیکن اسے اقتدار منتقل نہ کیا گیا۔ 1977ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیااور احتجاجی مہم شروع کی۔طویل احتجاجی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء آگیا جس نے جسد قومی کو تارتار کردیا اور ملک اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہاہے۔ ہر الیکشن کے پس منظر میں ایک کہانی سنائی جاتی ہے۔ چودھری شجاعت حسین بتاتے ہیں کہ پرویز مشرف نے قاف لیگ سے دغا کرکے پیپلزپارٹی کے لیے راہ ہموار کی۔ حتیٰ کہ انہیں گجرات سے شکست دلانے کے لیے ریاستی اداروں نے سازباز کی۔ عمران خان نے ایک اور پنڈورہ باکس کھول دیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پنجاب کے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ بریگیڈیئر (ر) رانجھا پر الزام لگایا کہ انہوں نے 2013 ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی فتح کو یقینی بنایا۔عمران خان نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اعلیٰ سطح کا فیصلہ تھا یا نہیں، لیکن مجھے معلوم ہے کہ پنجاب میں فوجیوں نے ووٹوں کی گنتی کے دوران مداخلت کی تھی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آزاد الیکشن کمیشن قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ شفاف اور آزادانہ الیکشن کرائے جاسکیں اور ماضی تجربات سے بچا جاسکے۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن تمام تر وسائل اور اختیارات کے باوجود قابل فخر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔گزشتہ الیکشن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی اس کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ۔ موجودہ چیف جسٹس بھی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کو اگلے چند ہفتوں میں احکامات جاری کرسکتے ہیں۔شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے اور اپنی اتھارٹی منوانے کے لیے الیکشن کمیشن نے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا جو کہ افسوسناک بات ہے۔ نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں جس طرح کے بیانات دے رہی ہیںوہ اپنے پاؤں پر خو د ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہیں۔یہ خام حکمت عملی مضبوط امیدوارں کی اکثریت کو بھاگنے پر مجبور کردے گی کیونکہ کوئی بھی ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کے لیے تیار نہیں ۔ پارٹی لیڈرشپ کے ان بیانات سے نون لیگ کی مقامی قیادت اور کارکن مایوس ہوں گے۔ سیاسی کارکن، کاروباری شخصیات اور ادارے جن کے مفادات حکومتوں یا انتظامیہ سے وابستہ ہوتے ہیں وہ بھی اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔ اس طرح نون لیگ کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں نقصان اٹھانا پڑھ سکتاہے نون لیگ سے قربت رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں میں سے اکثر کا خیال ہے کہ نوازشریف چاہتے ہیں کہ تصادم گہرا اور وسیع ہو۔ بے شک نون لیگ حکومت نہ بناپائے۔ وہ جانتے ہیں کہ عدالتوں میں ان کے خلاف جس نوعیت کے مقدمات چل رہے ہیں ان سے جلدی جان چھوٹنے والی نہیں۔وزیراعظم بننا تو درکنار پارٹی کے سربراہ کے طور پر بھی انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ۔ شریف خاندان میں اقتدار کی کشمکش بھی مسلسل چلتی رہتی ہے۔ نوازشریف مستقبل میں پارٹی اور خاندان کی باگ ڈور مریم نوازشریف کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو حمزہ شہباز کے مقابلے میں سیاسی طور پر بھی ان کے خیالات اور سیاسی فکر کے بہت قریب ہیں۔ ان کی ہی طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ کر گفتگو کرتی ہیں اور ججوں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں۔گزشتہ سات آٹھ ماہ میں مریم نواز نے ایک عوامی مقرر ہونے کے علاوہ پارٹی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرکے ثابت کیا کہ وہ نوازشریف کی اصل جانشین ہوسکتی ہیں۔ چودھری نثار علی خان جیسے لوگوں کو وہ پہلے چلتا کرچکی ہیں۔ اگر نون لیگ برسراقتدار نہیں آتی تو مریم نواز کے پاس اپنی لیڈر شپ منوانے، ملک گیر سطح پر متعارف ہونے اور پارٹی کو منظم کرنے کا وقت اور سنہری موقع ہوگا۔ سیاسی پنڈت انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ اس مرتب نون لیگ اپوزیشن میں بیٹھے۔ مریم نواز عمران خان کی حکومت کو تگنی کا ناچ نچائے ۔اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کوکام نہ کرنے دے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں الیکشن ہی کو متنازعہ بنادیا جائے گا تاکہ روزاوّل سے ہی حکومت کی ساکھ ہی ختم ہوجائے اور وہ دفاعی پوزیشن پر چلی جائے۔ منصوبہ یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں مریم پارٹی کی قیادت کریں اور ملک کی وزیراعظم بن جائیں۔اس دوران شہبازشریف خود ہی چودھری نثار علی خان بن چکے ہوں گے کیونکہ وہ اپوزیشن کی سیاست کرنے کے عادی نہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کا ان میں دم خم ہے۔ آصف علی زرداری کی بلی بھی رفتہ رفتہ تھیلے سے باہر آرہی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے حکومت سازی کے معاملات میں اتحاد کرسکتے ہیں۔ کراچی میں ایم کیوایم کے مختلف دھڑے بھی اختلافا ت ختم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ غالباً ان کے معاملات طے پاچکے ہیں اور وہ اگلے سیٹ اپ کا حصہ ہوںگے۔ ایسا لگتاہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ایم کیوایم پر سے پابندیاں کم ہوجائیں گی اور وہ زیادہ سیاسی سرگرمیاں کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ اس طرح کراچی مہاجروں کا ہی شہر رہے گا لیکن وہ قومی دھارے کی سیاست میں شریک ہوں گے اور تشدد کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کریں گے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں اور ’’خلائی مخلوق ‘‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کا عزم اور عہد کرے۔تاکہ اگلا الیکشن متنازعہ نہ ہو۔ ایسا ماحول پید اکیاجائے کہ جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع دستیاب ہوں تاکہ کوئی الیکشن کی غیر جانبداری پر انگلی نہ اٹھاسکے۔ انتظامیہ اور عدلیہ کو کسی ایک جماعت یا شخصیت کے حق میں اپنا وزن نہیں ڈالنا چاہیے۔ بصورت دیگر اگلے پانچ برس بھی ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے میںضائع ہوجائیں گے۔