2002ء کا الیکشن اس صورتحال میں ہوا تھا کہ ہمارے پڑوس میں ایک جنگ کو شروع ہوئے سال ہوچکا تھا۔ ہرچند کہ جنگ جیسی انسانی آفت جب کسی ملک پر مسلط ہوتی ہے تو اس کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی پڑتے ہیں لیکن افغان جنگ کے اثرات تب تک پاکستان نہیں پہنچے تھے کیونکہ امریکہ ابھی پوری طرح پاؤں نہیں جما پایا تھا اور افغان شہروں سے نکلے ہوئے طالبان ابھی پہاڑوں کی بلندیوں اور غاروں میں خود کو ٹھیک طرح سے منظم نہیں کر پائے تھے۔ ابھی بس وہ پہلا ہی راؤنڈ ہوا تھا جس میں امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کرکے انہیں افغان شہروں سے نکال دیا تھا۔ ابھی امریکی قبضے کا استحکام اور افغانستان کا نظام اپنی منشاء کے مطابق تشکیل دینے کا مرحلہ باقی تھا۔ ابھی کارپٹ بمبنگ سے بچ جانے والے طالبان کا افغانستان کے کوہساروں میں از سر نو مجتمع ہونے اور اپنے وطن میں در آنے والوں سے طویل گوریلا جنگ کا آغاز باقی تھا۔ سو ابھی پاکستان میں ٹی ٹی پی تشکیل پائی تھی اور نہ ہی ہمارے قریہ و بازار خود کش بمباروں سے آشنا ہوئے تھے۔ یوں پڑوس میں جنگ ہونے کے باوجود آنے والا الیکشن پر امن ماحول میں ہی ہونے جا رہا تھا۔ اس الیکشن میں اگر کوئی چیز خلاف معمول تھی تو یہ کہ یہ ایک فوجی حکمران کرا رہا تھا لہٰذا یہ طے تھا کہ نتائج حسب منشاء ہی آئیں گے۔ لیکن بات اتنی سادہ نہ تھی بہت گہری تھی جسے شاید آج بھی سیاستدان یکسوئی سے سمجھ نہیں پائے۔ ملک میں پہلی بار فوجی حکومت تو تھی لیکن مارشل لاء نہ تھا۔ پھانسیاں تھیں نہ ہی کوڑے، جیلیں تھیں اور نہ ہی سیاسی قیدیوں کی بھرمار۔ سینسرشپ تھی لیکن جنرل ضیاء کے سینسر شپ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ حیران کن طور پر جنرل مشرف ملک میں پہلی بار نجی الیکٹرانک میڈیا متعارف کرانے جا رہا تھا، وہی الیکٹرانک میڈیا جس کے آنے سے صحافت مضبوط ہوئی اور آزادی صحافت کی جنگ یوں آسان ہوئی کہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے ہوتے کچھ خبروں کا روکا جانا لگ بھگ ناممکن ہوگیا۔ اس پس منظر کے ہوتے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف میں یہ واضح فرق تھا کہ جنرل ضیاء کے لہجے اور بدن بولی میں تو انکسار اور عاجزی ہوا کرتی تھی لیکن اس کے اقدامات سفاکی سے بھرپور ہوتے۔ جبکہ جنرل مشرف کے لہجے اور بدن بولی میں اکڑ اور غرور نظر آتا لیکن اس کے اقدامات میں تب تک کوئی بربریت نہ تھی۔ پھر سب سے حیران کن چیز یہ تھی کہ ہر فوجی حکمران کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ جتنا ہوسکے اپنے مطلق العنان اقتدار کو طول دے۔ اس مقصد کے لئے وہ انتخابات کو وعدوں کے باوجود ٹالتا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ سیاستدان بیشک اپنی کیاری پر ہی کیوں نہ اگا لیا جائے جب وہ اقتدار میں شریک ہوتا ہے تو صرف عیاشی پر قناعت نہیں کرتا بلکہ اختیارات بھی مانگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء نے جن انتخابات کا وعدہ نوے روز میں کرانے کا کیا تھا وہ آٹھ سال تک ٹالے رکھے اور آٹھ سال بعد کرائے بھی تو غیر جماعتی تاکہ سیاسی جماعتوں کو اختیارات منتقل کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے سیاستدان اگائے جا سکیں۔ اس کے برخلاف جنرل مشرف اپنے اقتدار کے صرف تیسرے سال انتخابات کرانے جا رہا تھا وہ بھی غیر جماعتی نہیں بلکہ جماعتی۔ جنرل مشرف کے پہلے تین سالوں کے ان اقدامات اور اس کے قائم کردہ ماحول کا بہت باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو تاثر یہ ملتا ہے کہ اس بار معاملہ فقط فرد واحد کے شوق اقتدار کا نہ تھا بلکہ ایک نیا تجربہ کیا جا رہا تھا ۔ وہ تجربہ جس میں مارشل لاء تو نہ ہو مگر گرفت عسکری ہو اور اقتدار مل بانٹ کر کیا جائے۔ اس تاثر کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ مشرف دور کے میر ظفر اللہ خان جمالی کے حوالے سے کٹھ پتلی وزیر اعظم ہونے کا گمان نہ تھا، ان کے پاس اختیارات کم ضرور تھے لیکن تھے۔ شوکت عزیز کا معاملہ البتہ مختلف تھا کیونکہ ان کی سیاسی جڑیں ہی نہ تھیں۔ 2008ء کے انتخابات قریب آئے تو محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے اقدامات اور لہجے سے واضح طور پر محسوس ہوا کہ انہوں نے جنرل مشرف کے تجربے کو مسترد کردیا ہے اور وہ ملک میں ایک آزاد جمہوریت کے قائل ہیں۔ جنرل مشرف نے ان سے نمٹنے کے لئے سپریم کورٹ کو ری شیپ کرنے کی کوشش کی اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ انہی دنوں لال مسجد کا مسئلہ کھڑا ہوگیا جو جنرل مشرف کے لئے دوسرا بڑا وبال بننے والا تھا۔ا فتخار چوہدری کی برطرفی نے وکلاء اور سول سوسائٹی کو متحرک کیا تو لال مسجد آپریشن نے مذہبی حلقوں کو بھڑکا دیا، ایسے میں اکبر بگٹی کے قتل کا معاملہ بھی پوری شدت کے ساتھ اٹھ گیا اور گیم جنرل مشرف کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئی۔ سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ اگر افتخار چوہدری کی برطرفی کامیابی سے انجام پاجاتی اور لال مسجد کا سانحہ نہ ہوتا تو مستقبل کا منظر نامہ کیا ہوتا ؟ شاید یہی کہ عبد الحمید ڈوگر حرکت میں آجاتا اور ملک میں انتخابی سیزن والے ’’انصاف‘‘ کا دور اسی عرصے سے شروع ہوجاتا جس کی بنیاد 2013ء میں پڑی۔ ایک اور ٹرینڈ یہ آیا کہ 2008ء کے الیکشن سے ہی دہشت گردی بطور ڈیٹرنٹ استعمال ہوتی نظر آرہی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل سے لے کر احسن اقبال پر ہونے والے قاتلانہ حملے تک سب کچھ آپس میں مربوط نظر آتا ہے۔ 2008ء سے ہر الیکشن کچھ کہتا ہے لیکن پتہ نہیں کیا کہتا ہے !