تھپڑ! اور ایسا تھپڑ جس نے چہرہ سرخ کر کے رکھ دیا ہے! گال پر انگلیوں کے نشان صاف نظر آ رہے ہیں! یہ تھپڑ مغرب نے مسلمانوں کے چہرے پر مارا ہے۔ بڑے بڑے مسلمان ملکوں میں رائج نظام ہائے حکومت دیکھ لیجیے۔پوری عرب دنیا پر آمریت چھتری کی طرح تنی ہوئی ہے۔ مراکش سے لے کر مصر تک اردن سے لے کر بحرین تک! کیا سعودی عرب اور کیا یو اے ای! موروثی بادشاہتیں ہیں یا آمرانہ حکومتیں! ایران میں کہنے کو جمہوریت ہے مگر ایسی جمہوریت جس کے اوپر ایک غیر منتخب کونسل آمرانہ اختیارات کی مالک ہے۔ رہے ترکی بنگلہ دیش پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک تو کہنے کو جمہوریت ہے مگر عجیب و غریب جمہوریتیں ! پاکستان میں دو تین خاندان ہیں جو حکومتوں کو جاگیر سمجھتے ہیں دولت جن کی ملک سے باہر پڑی ہے۔بنگلہ دیش پھانسیوں والا ملک ہے حسینہ واجد انتقام کی دیوی ہے! ترکی کے لوگ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ حکمران کے بیٹے کے پاس اتنے بحری جہازوں کی ملکیت کہاں سے آئی ہے؟ وسط ایشیائی ریاستوں میں بدترین فسطائیت راج کر رہی ہے! یہ ہیں وہ مسلمان ملک جن میں کچھ نام نہاد دانشور آئے دن جمہوریت کو کفر گردانتے ہیں اور خلافت کا جذباتی نعرہ لگاتے ہیں یہ کوئی نہیں بتاتا کہ خلیفہ کا انتخاب کیسے ہو گا؟ قریب ترین خلافت‘ ’’خلافتِ عثمانیہ نظر آتی ہے جس میں یہ فتویٰ لیا اور دیا گیا تھا کہ جو خلیفہ بنے‘ اس کے لیے اپنے بھائیوں کو قتل کرنا جائز ہے تاکہ ’’امن و امان‘‘ میں خلل نہ پڑے۔ ساجد جاوید ایک بس ڈرائیور کا بیٹا ہے۔ بس ڈرائیور بھی وہ جو سفید فام ہے نہ نصرانی! پاکستان سے آیا ہوا تارک وطن! برسٹل میں یہ خاندان ایک دکان کے اوپر دو کمروں والے فلیٹ میں رہتا تھا! یونیورسٹی تعلیم سے فارغ ہو کر ساجد جاوید نیو یارک میں چیز مین ہیٹن بنک میں ملازم ہو گیا۔25برس کی عمر میں گندمی رنگ کے اس مسلمان ایشیائی کو اس وسیع و عریض بنک ایمپائر کا نائب صدر بنا دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ یورپ واپس آیا اور جرمن Deutsche بنک میں ملازم ہو گیا ستر ملکوں میں کام کرنے والے اس بنک کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ ہے جن کی بھاری اکثریت سفید چمڑی رکھتی ہے۔ ساجد جاوید کو اس بینک کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ سنگا پور میں وہ اس بنک کا ایشیا میں پھیلے کاروبار کا سربراہ بن گیا۔ پھر اسے اس کے بورڈ کا رکن بنا دیا گیا جو ایک طاقت ور منصب تھا۔ پھر یہ سب چھوڑ کر ساجد جاوید نے سیاست کا رخ کیا۔ اس نے کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ’’برامز گروو‘‘ ایک قصبہ ہے برمنگھم سے تیرہ میل کے فاصلے پر! یہاں سے پارلیمنٹ کی رکن ایک خاتون جُولی کرک برائڈ نامی تھی۔ وہ کسی وجہ سے مستعفی ہوگئی۔ مقامی کنزر ویٹو پارٹی کے اندر ووٹ ڈالے گئے تو ستر فیصد ووٹ ساجد جاوید کے حق میں پڑے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ساجد جاوید کنزرویٹو پارٹی میں شامل ہوا تو اسے کسی بھٹو خاندان کی غلامی اختیار کرنا پڑی نہ کسی شریف خاندان سے وفاداری کا عہد اٹھانا پڑا پارٹی پر کسی اسفند یار ولی کا خاندان قابض تھا نہ کسی مولانا فضل الرحمن کا موروثی حق! یہاں تو صرف ایک معیار تھا۔ ووٹ !ووٹ زیادہ تعداد میں ساجد جاوید کو پڑے تو پارٹی میں کسی نے اعتراض نہ کیا۔ کسی نے نہ کہا کہ یہ تو مسلمان ہے یا ایشیا کا گندمی رنگ رکھتا ہے! یا اس کا باپ تو ایک بس ڈرائیور ہے پارٹی کے اندر‘‘ ووٹ لے کر‘ ساجد جاوید پارلیمنٹ کا امیدوار بن گیا۔ اس لیے کہ یہ پارٹی کا فیصلہ تھا اور پارٹی نے فیصلہ ان ووٹوں کی بنیاد پر کیا تھا جو ساجد جاوید نے پارٹی کے اندر حاصل کیے تھے! وہ پارلیمنٹ کا الیکشن بھی جیت گیا۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیک سٹرا نے چھ ارکان پارلیمنٹ کے نام لیے اور کہا کہ کنزر ویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے ان پارلیمنٹ کے ارکان نے منتخب ہونے کے بعد پہلی بار ہی زبردست کارکردگی دکھائی اور مثبت تاثر چھوڑا۔ ان چھ ارکان میں یہ گندمی رنگ والا مسلمان ساجد جاوید بھی شامل تھا! طاقت ور اخبار فنانشل ٹائمز نے جن چھ ارکان کے پروفائل شائع کیے ان میں ساجد جاوید کا نام بھی تھا۔2012ء میں روزنامہ ٹیلی گراف نے دائیں بازو کے سو بااثر ترین ارکان کی فہرست شائع کی ساجد جاوید ان میں بھی شامل تھا! 2014ء میں ’’دی ٹائمز‘‘ نے دعویٰ کیا کہ وہ پارٹی کی اعلیٰ ترین سطح تک پہنچ سکتا ہے‘‘ یہ کوئی خطرے کی گھنٹی نہیں تھی جو اس طاقت ور روزنامے نے بجائی تھی! پریس ان ملکوں میں رائے سازی کا کام کرتا ہے اور ایسے سروے شائع ہوتے رہتے ہیں جو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں! خود ڈیوڈ کیمرون نے ساجد جاوید کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے Brilliant asian manقرار دیا۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے یہ بھی کہا کہ میں وزیر اعظم کا لفظ ایک ایشیائی نام کے ساتھ سننا چاہتا ہوں‘‘ 2014ء میں بااثر جریدے’’فوربز‘‘ نے ساجد جاوید کا موازنہ بارک اوباما سے کیا اور پیش گوئی کی کہ وہ برطانیہ کا وزیر اعظم بنے گا! 2014ء میں اسے کلچر اور میڈیا کا وزیر مملکت بنایا گیا۔30اپریل 2018ء کو وہ وزیر داخلہ تعینات ہوا۔ یہ کابینہ کا طاقتور ترین منصب ہے جو پہلی بار ایک غیر سفید فام کو۔ ایک ایشیائی کو ملا۔ بس ڈرائیور کا بیٹا! جو مسلمان‘ پاکستانی‘ تارکین وطن والدین کے ساتھ دو کمروں والے فلیٹ میں رہتا تھا! مسلمانی کا دعویٰ کرنا اور دوسروں کو ہدف تنقید بنانا آسان ہے! بس ڈرائیور کے بیٹے کو وزیر داخلہ بنانا مشکل!! پھر اس پر غور کیجیے کہ ساجد جاوید کو اس سارے عرصہ میں کسی نے ’’اقلیت‘‘ کا نمائندہ ہونے کا طعنہ نہیں دیا! ہمارے ہاں تو رمیش کمار ہے یا کوئی اور غیر مسلم! وہ پاکستانی بعد میں ہے اور اقلیت کا نمائندہ پہلے! اگر پاکستانی ہے تو ہوتا رہے پاسپورٹ پر اس کی قومیت پاکستانی لکھی ہے تو لکھی رہے‘ یہاں تو فیصلہ کن امر یہ ہے کہ مذہب کون سا ہے؟ تم جو چاہے کرو‘ ملک کی جتنی خدمت کرو‘ ہوائی جہاز اڑا کر بھارت پر بم برساتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کر دو۔ چیف جسٹس بن جائو‘ رہو گے اقلیتی رکن! اکثریت کے نمائندے تو تم بن ہی نہیں سکتے! آپ کا کیا خیال ہے‘ مغربی ملکوں میں چار کروڑ سے زیادہ جو مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اگر آج انہیں ’’اقلیت‘‘ قرار دیا جائے تو کیسا محسوس کریں گے؟ یقین جانیے‘ سارے مسلمان ملکوں میں احتجاج کی ایک لہر اٹھے گی اور اس بات کا جواب کوئی نہیں دے گا کہ خود مسلمان ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر اقلیت یا اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے! کینیڈا میں وزارت دفاع کا چارج ایک سکھ‘ ہرجیت سنگھ سجن کے پاس ہے جو پارلیمنٹ کا رکن ہے! جی ہاں! اس ’’اقلیتی‘‘ گروہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان کو جو عیسائی ہے کے سفید فام! وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے بے شمار سفید فام اس کے حکم کے تابع ہیں! تمام حساس ادارے تمام حساس مقامات‘ اس کے علم میں ہیں! آبدوزیں کتنی ہیں؟ اسلحہ کہاں پڑا ہے؟ افواج کی تعداد کیا ہے؟ ان کی تعیناتیاں کہاں کہاں ہیں؟ جرنیلوں کی ترقیاں کب کرنی ہیں؟ یہ سب ہر جیت سنگھ سجن کے دائرہ اقتدار اور حدِ اختیار میں ہے! کینیڈا کی سالمیت کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا! ملک کی نظریاتی اساس میں کہیں سے دراڑ نہیں پڑی کسی گرجا سے صدائے احتجاج نہیں بلند ہوئی! ’’عیسائیت کے لیے خطرہ‘‘ کے عنوان سے کوئی پمفلٹ نہیں تقسیم ہوا۔ ’’دفاع کینیڈا‘‘ کے نام سے کوئی پلیٹ فارم نہیں وجود میں آیا۔ ہر جیت سنگھ سجن اور ساجد جاوید اور بے شمار دوسروں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ ہر جیت سنگھ سجن کینیڈا کا شہری ہے۔ اسے ووٹ ملے ہیں! عوام نے اعتماد کیا ہے! ساجد جاوید برطانوی شہری ہے! اسے ووٹ ملے ہیں! عوام نے اعتماد کیا ہے! بس! یہ کافی ہے! اب وہ وزیر بھی بن سکتے ہیں اور وزیر اعظم بھی!! اور ہاں! یہ نہ بھولیے گا کہ ساجد جاوید اور ہر جیت سنگھ سجن کو وزیر بننے کے لیے کسی بلاول کسی مریم یا کسی حمزہ شہباز کے سامنے دست بستہ کھڑا نہیں ہونا پڑا!