باپ شجر سایہ دار ہوتا ہے اور شفقت اس کو خلاق فطرت نے اتنی زیادہ ودیعت کر دی ہوتی ہے کہ وہ نسلوں کو فیض بخشتا رہے۔ انسانی اقدار کو تربیت میں اتارتا رہے اور امانت اخلاق‘ نفس و قلب میں ایسے بٹھا دے کہ انسان کا بچہ انسان بن جائے۔ عجب فطرت ہے انسان کی‘ جب ذرا سے ہوش کے ناخن لیتا ہے تو اسے فطرت کے عطا کردہ سائے کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہوتی ہے اور وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو اتنی جلدی پروان چڑھاتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شعور کا مرقع نظر آتا ہے اور یہ سب کچھ فیضان پدری ہوتا ہے۔ یہ ایک اصل اور حقیقی مظہر ہوتا ہے کہ خالق لم یزل نے اپنی رضاء کو باپ کی خوشنودی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ آج کے معاشرے میں روایت اور پھر احسن روایت کو گراوٹ کا سامنا ہے۔ یہ احسن روایت کیا تھی؟ یہی کہ باپ کو اپنے مربی کا درجہ دینا ضروری تھا۔ باپ کی انگلی پکڑ کر آداب اور اخلاق کی روشن راہوں پر چلنے کے لیے باپ کا فطری ادب ضروری تھا۔ اس لیے کہ باپ صرف شجرِ امن ہی نہیں ہے بلکہ وجود بدنی کا امین بھی ہے جو اپنے صلب میں تخلیقی تقاضوں کی تکمیل کے لیے کس کس پاک دامنی سے محفوظ رکھتا ہے اور پھر عالم وجود میں آنے کے بعد اہتمام رزق کو بھی خوشی خوشی اپنے ذمے لیتا ہے پھر تعلیم و تربیت کے لیے اپنا اثاثہ جان قربان کرنے پر آمادہ رہتا ہے اور اولاد کے مستقبل کی تعمیر کے لیے اپنا حال نثار کرتا ہے۔ ہاں خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے والدین اور آباء کی سعی و کوشش کو یاد رکھتے ہیں۔ پھر وہ اس احساس محبت کو پروان چڑھاتے ہیں اور اس محبت کو اپنی جان عزیز کا سرمایہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کی زندگانی میں حسن سلوک میں اعلیٰ استحقاقی درجے پر رکھتے ہیں۔ بعداز انتقال ان کی تسکین روح کا سامان بھی کرتے ہیں۔ والدین کا سایہ سر پر ہو تو تب ہی اور جب وہ جہان باقی کی طرف مراجعت کریں تو تب بھی ان کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے دعائوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ والدین کے احسانات یاد کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازیاں بھی یاد آتی ہیں اور یہ ذکر خدا کا ایک اچھا انداز ہے دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شکر کا احساس بھی جاگتا رہتا ہے تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے احسانات کا تصور ہماری ذات کو تکبر اور برائی کے احساس سے دور رکھتا ہے۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ کا بے پایاں احسان یہ رہا ہے کہ مجھے ایسے دیندار اور تقویٰ شعار والدین میسر آئے جن کا اوڑھنا بچھونا ہی حب الٰہی اور حب رسولﷺ رہا۔ میرے والد ذی احترام کا تعلق ایک موروثی زمیندار گھرانے سے تھا ان کے اجداد پر رحمت خداوندی کا سایہ اس طرز پر جلوہ فگن تھا کہ وہ صوفیاء کرام کے دامن تربیت سے وابستہ تھے زرعی زمین پر اگرچہ مزارعین کا کام کرتے تھے مگر میرے والد گرامی کے دادا‘ پر دادا اور ان سے اوپر کے آبائے کرام زمین کا کچھ حصہ از خود بھی کاشت کرتے تھے۔ یہ خدائی برکت ہی ہوتی ہے جب کسی بھی شخص کو صالحین اور متقین کی نسبت کے ساتھ ساتھ صحبت بھی میسر آ جائے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوتا ے کہ جب کوئی شیخ کامل اپنے مرید کو اور اس کے متعلقہ افراد زندگی کو زیر تربیت رکھے۔ میرے اجداد کے مشائخ کرام بھی اپنے مریدین کی تربیت کو تمام کاموں پر فوقیت دیتے تھے۔ میرے والد مرحوم حضرت حافظ میاں راجدین نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مرحوم سے حاصل کی‘ ابتدائی تعلیم میں سب سے پہلے قرآن ہے۔ وہ ہل چلاتے تھے تو حضرت والد گرامی میاں جی ساتھ ساتھ اپنی زبانی تلاوت کو جاری رکھتے تھے پھر جب دادا حضور کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے رھٹ چلاتے تھے میرے والد گرامی قریب بیٹھ کر اپنا سبق یاد کرتے تھے۔ کیا انداز اقلیم ہے اور کیا مضبوط طریقہ تربیت ہے۔ میاں جی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا جب تک یاد خدا دل میں نہ سمائے اور زبان پر جاری نہ رہے۔ اس وقت تک دین یا دنیا کے کسی بھی کام میں برکت نہیں ہوتی یہ بھی فرماتے تھے کہ جو کسان زراعت کے کام کرتے ہوئے یاد خدا میں مشغول رہتا ہے اس کی برکت اگنے والی فصلوں میں پہنچ جاتی ہے اور اس زراعت سے حاصل ہونے والا رزق ایمان کی قوت کو بڑھاتا ہے۔ ایک روز میاں جی سے ان کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ میاں جی آپ کے بزرگوں نے آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا یہ انداز کیوں اپنایا تو میاں جی نے جواب دیا کہ تعلیم کے ساتھ مشقت جاری رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ رزق حلال کمانے کی عادت گھٹی میں پڑ جاتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ علم کے ساتھ عمل کرنے کی عادت بھی پروان چڑھ کر مضبوط درخت کی طرح ہو جاتی ہے۔ ایسے باعمل عالم کی صحبت میں بیٹھنے والوں کے دلوں میں بھی عمل کی صحبت اور تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ میاں جی کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع ہے پوری توجہ سے قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے اور ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تربیت بہت ہی شائستہ اور آہستہ طریق پر جاری رکھتے تھے۔ میاں جی کے شاگرد اندرون ملک اور بیرون وطن بہت اہم قومی خدمات انجام دے رہے ہیں جب کوئی شخص ان سے ملاقات کرتا ہے تو ان حضرات کے لہجے میں انکساری اور شائستگی محسوس کرتا ہے تو ان سے یہ سوال بھی کرتا ہے کہ آپ اتنے اہم اور بڑے عہدے پر فائز ہیں لیکن آپ کی گفتگو اور عادات نخوت و نخرہ سے کوسوں دور ہیں تو وہ جواب میں یہی کہتے ہیں کہ ہماری زندگی کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں ہمارے استاد کریم حضرت میاں جی کی تلقین و عادات کا بہت زیادہ اثر ہے۔ میاں جیؒ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت میں بہت زیادہ انہماک رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت سے کبھی غافل نہ ہوتے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد نرینہ تھا۔ بڑی ہمشیرگان تھیں۔ میاں جی ہمارے اوقات تعلیم و عبادات کی ادائیگی پر بڑی کڑی نظر رکھتے تھے روزانہ تہجد کی ادائیگی کے لیے حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمتہ و رضوان کے مزار اقدس سے متصل مسجد میں پیدل جایا کرتے تھے اور آندھی بارش‘ غم خوشی کبھی بھی ان کے عمل صالح اور پختہ نیک عادت میں رکاوٹ نہ بن سکے تہجد کے لیے جاتے ہوئے ہم سب بچوں کو جگاتے تھے اور چونکہ مسجد میں فجر کی امانت بھی انہوں نے اپنے ذوق دینی کے خاطر اپنے ذمے لی ہوتی تھی اس لیے مجھے فجر کی نماز میں مسجد ساتھ لے کر جاتے تھے پھر قرآن کریم اور اعمال دینی کی تربیت مسجد میں ہی فرماتے تھے۔ والدہ مرحومہ اماں جی کو پابند کیا ہوا تھا کہ مسجد میں مسافر آ کر قیام کرتے ہیں ان مسافروں کا ناشتہ نماز کے فورا بعد بھجوایا کریں۔ مسافروں کے ناشتے میں کئی غریب طلبہ چوری چھپے شریک ہو جاتے تھے دوسرے طلبہ میاں جی کو شکایت کرتے تھے کہ دیکھیں فلاں طالب علم مسافر مہمانوں کا کھانا کھا رہا ہے تو میاں جی آنکھیں نیچے کر کے مسکراتے ہوئے آہستہ سے جواب دیتے کہ کوئی بات نہیں اس کا رزق ایسے ہی لکھا ہے پھر ایسے غریب طلبہ کے گھر کبھی کبھار اچھا کھانا بھی بھجوا دیا کرتے تھے۔ علماء اور سادات کا بہت ادب کرتے تھے مذہبی عصبیت اور مسلکی دھڑے بندی سے بہت اجتناب کرتے تھے ایک دن ایک سکہ بند مسلک پرست واعظ نے میاں جی سے پوچھا کہ آپ مسلکی شدت کو کیوں اختیار نہیں کرتے۔ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر حضرت عالم صاحب سے فرمایا کہ مولوی جی آپ مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنے عمل اور دعوت میں قوت پیدا کیوں نہیں کرتے۔ میاں جی کا اپنا مشرب و ذوق تھا۔ لیکن اپنے ذوق کو نہ متعارف کرواتے تھے اور نہ ہی کسی کو مجبور کرتے تھے وہ ان کے طبعی دینی ذوق کا اتباع کرے۔ ان کے شاگردوں میں ہر طرز مسلک کے طلبہ شامل تھے بسا اوقات ناپختہ ذہن نوجوان کسی بھی شدت پسند کی تقریر سنتے اور پھر حلقہ درس میں بحث کرنے کی کوشش کرتے تو میاں جی ان کو بہت پیار سے سمجھاتے کہ دیکھو بیٹا قرآن پڑھ لو اور دینی اعمال سیکھ لو۔ پھر اپنا زیادہ وقت قرآن کی تلاوت اور لوگوں سے بھلائی کرنے میں گزارو تمہیں ایسے اختلافی موضوعات پر بحث کرنے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ میریے تینوں بیٹے انس غازی‘ اسامہ غازی اور سعد غازی اپنے دادا کے زیر تربیت رہے نماز فجر اور نماز جمعہ تک میاں جی کے ساتھ ہی جایا کرتے تھے۔ مسجد میں ان بچوں کو اپنے سے بڑوں کو ملنے کے آداب بتایا کرتے تھے کبھی خطیب صاحب کسی اختلافی مسئلے پر تقریر کرتے تو بچے میاں جی سے سوالات کرتے تو میاں جی بچوں سے فرمایا کرتے تھے خالی باتوں کو سن کر کسی بھی بات کو صحیح طور پر نہیں سمجھا جا سکتا اس لیے تم اچھی باتیں سن کر ان پر فوری عمل شروع کر دو۔ تمہارے ذہنوں میں سکون از خود پیدا ہو جائے گا اور یہ بھی سنو کہ ایسے انسانوں کی باتوں پر غور کیا کرو‘ خود بھی اپنی بات پر عمل کرتے ہیں۔دراصل میاں جی کا ذوق عبادت اتنا پختہ تھا کہ قرون اولیٰ کے صالحین کی تصویر نظر آتے تھے اور ان کا مشہور مقولہ یہی تھا کہ ع عبادت خدا کی اور خدمت مخلوق کی آج میاں جی ؒ عالم برزخ کے روشن ماحول میں سکینت کی چادر اوڑھے آسودہ باغ جناں ہیں۔ ان کی قبر پر قرآن کے انوار برستے ہیں اور زائرین کے لیے اشتیاق نور و کرم کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ ؎ ظلمتوں سے لڑتے لڑتے ‘ نور کی منزل ملی سو رہے ہیں قبر میں وہ نوری چادر اوڑھ کر