2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

انقلاب لانے کا ایک سستا حل

محمد حسین ہنرمل
15-10-2018

کیا ہم نے کبھی سوچاہے کہ ہماری اکثریت انقلاب اور تبدیلی چاہتی ہے۔ہم میں سے جو لوگ کسی مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کا مطمح نظر بھی انقلاب ہوتا ہے۔ جن حضرات کاکسی قوم پرست پارٹی سے تعلق ہو تو ان کے دلوں میں بھی انقلاب اور تبدیلی کی تمنائیں انگڑائیاں لیتی رہتی ہیں۔ہمارے ڈاکٹر ز حضرات بھی انقلاب چاہتے ہیںاور ہمارے اساتذہ ، وکیل ، انجینئر ،مولوی ،پیر وفقیر غرض سبھی انقلاب کی راہ تک رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک انقلاب کو سمجھابھی نہیں ہے ۔ہماری ڈکشنریوں میں انقلاب صرف اس تبدیلی کا نام ہے جو اٹھارویں صدی کے آخر میں فرانس میں آیا تھا جب 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کرکے بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور بالآخرنہ صرف ولی عہد فرانس کو قتل کردیا گیا بلکہ ہزاروں افراد اس دمادم مست قلندر میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور طویل خلفشار کے بعد 1804ء میں نپولین یونا پارٹ کے برسر اقتدار آنے سے فرانس کی تاریخ کاایک نیا باب شروع ہواتھا ۔یا ہم اس تبدیلی کو انقلاب کا نام دیتے ہیں جو آج سینتیس برس قبل ہمسایہ ملک ایران میں آیا تھا جس کے نتیجے میں شاہ ایران فرار ہوا اس کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے تھے اور بڑے پیمانے پر قتل وقتال ہونے کے بعد ایک اسلامی ایران وجود میں آیا تھا۔ہم اگر پوری زندگی اس طرز انقلاب کے متمنی رہیں گے تو اس کاآسان سا مطلب یہ ہوگا کہ ہم لوگ انقلاب کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی زحمت نہیں کی ہے کہ انقلاب افراد اور ہجوم کے علاوہ فرد بھی لا سکتاہے ۔ یا بالفاظ دیگر ایک فرد کا لایا ہوا انقلاب نپولین کے انقلاب سے بھی زیادہ پائیدار ہوتاہے اور امام خمینی کے اسلامی انقلاب سے بھی زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اگرپوری زندگی فرانسیسی اور ایرانی انقلاب کی راہیں تکتے رہیں گے تو یہ محض خیالی پلاو کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس دور میں نپولین وغیرہ طرز کی تبدیلی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ اس دور میں دو افراد کا ایک جگہ جمع ہونا بھی محال نظر آتاہے چہ جائیکہ ہزاروں لاکھوں افراد کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر ایک ہی سوچ کے تحت ان کو راتوں رات تبدیلی کا ٹاسک دینا۔ہم اگر اپنی ڈکشنریوں سے فی الوقت فرانسیسی اور ایرانی انقلابات کے معانی نکال لیں اور انفرادی انقلاب لانے پر اکتفا کرلیں تو یہ سب سے سستا انقلاب ہوگا۔ میرا یقین ہے کہ اس طرز کا انقلاب بڑا موثرثابت ہوسکے گا۔ انفرادی طرز انقلاب کے نتیجے میں نہ توکسی بادشاہ کو قتل کرنے یا بھگانے کی نوبت آئے گی اور نہ ہی ہم بڑے پیمانے پر اپنے غریب عوام کے قتل عام کے مرتکب ہونگے۔اس طرز انقلاب کاایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہم ڈنڈے کے خوف سے بھی آزاد ہونگے اور روز قانون ہمارا پیچھا بھی نہیں کرے گا۔ اس طرز کے انقلاب کے تحت ہم نے صرف اپنی ذات کے ساتھ ایک فیصلہ کرنا ہے ۔اپنے ضمیر کو قانون بناناہے اور ضمیر ہی کی روشنی میں اپنی زندگی کی گاڑی کو چلانے کا تہیہ کرنا ہے۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ تبدیلی آجائے تو اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ ہم آج ہی سے اپنا احتساب خود شروع کریں۔ہمارے ڈاکٹرز حضرات صحت کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی لانے کی قدرت رکھتے ہیںتوان کو چاہیے کہ وہ آج ہی سے بسم اللہ کریں ۔یہ اپنے مریضوں کو اتنا وقت دینے کا عہد کرلیں جتنا ان کے مریض کا بنتاہے۔یہ فیس لینے میں بھی بردباری کا مظاہرہ کریں اوراپنے مریضوں کے لئے اتنا فیس مقرر کریں جتنی فیس اس کا مریض افورڈ کرسکتاہے۔ یہ لوگ میڈیسن کمپنیوں کی ان مراعات کو ٹھکرادیں جس کے عوض ان کو لاکھوں کے حساب سے نقد پیسے اور ہر تین مہینے کے بعد بیرون ملک کے دورے ملتے ہیں۔یہ حقیقت میں مسیحا بن کر دکھادیںاور جھوٹے انقلاب کی ان خواہشات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لات ماریں جن کا پورا ہونامحض ایک خواب ہی ہے۔ہمارے سیاست دان صاحبان اپنے ورکرز کو ساری زندگی انقلاب فرانس کی لالچ دینا چھوڑ دیں اور یہ پہلے اپنے اندر انقلاب کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں۔میرا یقین ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا لیڈر انفرادی انقلاب کو سب سے بہتر طریقے سے نافذ کرسکتاہے کیونکہ ان کے ہزاروں لاکھوں معتقدین کو بھی آخر ضرور ان کی پیروی کرنی پڑے گی ۔ اسی طرح ہمارے اہل مذہب اور واعظ حضرات بھی اس انقلاب کی طرف آئیںجسے انفرادی طرز کا انقلاب کہاجاتاہے۔یہ لوگ روز ریاست کے خلاف خروج کی بجائے اس آسان نسخے کو آزمالیں، میرا یقین ہے کہ تبدیلی آنے میں دیر نہیں لگے گی۔یہ حضرات معاشرے کوصرف بتانے کی بجائے عملی کے راستے کے ذریعے صراط مستقیم بتانے کی کوشش شروع کریں۔ہمارے مدارس، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز میں پڑھانے والے بھی اس خیالی انقلاب سے گریز کریں جو اس وقت قصہ پارینہ بن چکاہے۔یہ لوگ معاشرے میں حقیقی استاد بننے کا ثبوت دیں اور پورے خلوص نیت سے علوم دوسروں کو منتقل کرلیں۔ ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پراس حوالے سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔یہ اگر قانون کو صحیح نیت سے فالو کرنے کی ٹھان لیں اور ڈسپلن کا خیال رکھیں تو وہ دن دور نہیں جب ایک خاموش انقلاب ہمارے معاشرے کا مقد ربنے گا ۔