بدلتے موسموں کا المیہ
وسی بابا
بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم ہمیشہ سے حساس معاملہ رہا ہے، جس کی تازہ ترین مثال بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کے لیے چوتھی بار نوٹس کا بھیجنا ہے۔ بظاہر معاملہ مغربی دریاؤں پر بننے والے بھارتی ہائیڈروپاور منصوبوں پر پاکستانی اعتراضات کا ہے، لیکن گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو اصل مسئلہ ہمالیائی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور مون سون کی توسیع ہے، جو مستقبل میں دونوں ممالک کے لیے تباہ کن سیلابوں کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ سیلاب نہ تو پاکستان کی کمزور معیشت برداشت کر سکتی ہے اور نہ ہی بھارت اس کے اثرات سے بچ سکتا ہے۔ پچھلے سال ستلج میں آئے سیلاب سے بہاولپورکو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ اگر گنڈا سنگھ پر پانی کو چوبیس گھنٹے تک روک لیا جاتا، تو بھارتی پنجاب زیر آب آ جاتا اور سیلابی پانی روہی تک، جہاں پرانے وقتوں میں ہاکڑہ دریا بہا کرتا تھا، پہنچ جاتا۔ یہی صورتحال دوسرے ہمالیائی دریا جمنا کی تھی، جس کا پانی دہلی میں داخل ہو گیا تھا۔موجودہ سال حالات قابو میں رہے لیکن اگر ہماچل پردیش میں مون سون کے آخری حصے میں مزید بارش ہو جاتی، تو بھاکڑہ ڈیم پہلے ہی خطرے کے نشان کو چھو رہا تھا، جس سے حالات بگڑ سکتے تھے۔ یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے آبی وسائل پر تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور بدلتے موسمی حالات، جیسے کہ مون سون کی توسیع اور ہمالیائی گلیشیئرز کا پگھلنا، صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کی تاریخ کو صرف موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا کافی نہیں ہوگا۔جنوبی ایشیا کی قدیم تہذیبوں نے پانی کے استعمال میں غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا، جسے آج کے حالات کو سمجھنے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پانی کے استعمال کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ قدیم تہذیبوں نے زراعت کے فروغ کے لیے پانی کے پیچیدہ نظام تیار کیے، جن کی ایک اہم مثال چانکیہ کی کتاب"ارتھ شاستر" ہے، جو چوتھی صدی قبل مسیح میں لکھی گئی۔ اس دستاویز میں چانکیہ نے زمین کی ہمواری، نہری نظام کی تعمیر اور پانی کے مناسب ذخیرے کے طریقے بیان کیے ہیں تاکہ زراعت کو پانی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور زمینی پانی کو دوبارہ ری چارج کیا جا سکے۔ وہ پانی کے وسائل کے بہتر استعمال اور معاشرتی اور اقتصادی خوشحالی کے لیے اسے محفوظ کرنے کی بات کرتا اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ پانی کی تقسیم کو منظم کرنا اور خشک سالی یا سیلاب جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مستحکم نظام بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔برطانوی دور میں ہندوستان کی زرعی زمینوں کو بہتر بنانے اور اس سے منافع کمانے کے لیے پانی کے نظام کو دوبارہ پرانے خطوط پر ہی منظم کیا گیا۔ لیکن برطانوی حکومت کے عزائم خالصتاً تجارتی تھے۔انہوں نے نہری نظام کو وسعت دی تاکہ زراعت میں اضافہ کیا جا سکے اور برآمدات کی جا سکیں، خاص طور پر کپاس اور گندم جیسی فصلیں جو یورپی منڈیوں میں انتہائی مطلوب تھیں۔ واضح طور پر ایک نوآبادیاتی طاقت نے دریاوں کے انتظام میں اپنے مفادات پیش نظر رکھے اور زمینی پانی کے ری چارج اور مقامی تیکنیکوں کو نظر انداز کیا جو ہزاروں سالوں سے مقامی لوگ استعمال کر رہے تھے۔ ستلج اور جمنا دونوں دریا قدیم زمانے میں ہاکڑہ وادی میں بہتے تھے، سرسوتی ندی کا وجود انہی دریاؤں پر منحصر تھا۔ جب خشک دور آیا، تو یہ دریا گنگا اور سندھ کے طاس میں تقسیم ہو گئے، جس نے دونوں وادیوں کی خوشحالی برقرار رکھنے میں اہم کردار تو ادا کیا لیکن اس عمل سے ہاکڑہ طاس خشک اور بنجر ہوگیا۔ آج کے تناظر میں، جب ہمالیہ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں، ضروری ہے کہ قدیم ہندوستان کی آبی مہارتوں سے سیکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانوی دور کی منصوبہ بندی کا بھی ماحولیات کے تناظر میںتجزیہ کیا جائے تاکہ بدلتے حالات میں پانی کے ذخائر اور تقسیم کا بہتر انتظام کیا جا سکے۔ مودی سرکار نے کبھی ستلج کے پانیوں کو ایک لنک کینال کے ذریعے جمنا میں اور پھر وہاں سے ہاکڑہ میں ڈالنے کا منصوبہ بنایا تاکہ تاریخی دریا سرسوتی کے احیا کا امکان پیدا کیا جاسکے۔ تاہم پنجاب کی مخالفت اور پچھلے چند سالوں میں ہونے والے تجربات اور ماحولیاتی ماہرین کے انتباہ سے شاید ادراک ہوگیا ہے کہ معاملہ کچھ زیادہ گھمبیر ہے ۔ہمالیہ کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور اگلے بیس برسوں میں اس کی چوٹیاں خالی ہونے کی پیشگوئی ہے۔لینڈسلائڈنگ کے بڑھتے واقعات کی وجہ سے ڈیم اور بجلی منصوبے خطرے میں ہیں اور انسانی آبادی اور املاک بھی۔ بڑے سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے توپانی کی تقسیم کے پاک بھارت معاہدے کا ازسرنو جائزہ لینا ناگزیر ہے۔اس سمت میں پہلا قدم مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ایک چیلنج ہے۔ بھارت کے پاس ہی اس کی کنجی ہے کہ تقسیم ہند سے لیکر ماحول دشمن سندھ طاس معاہدے اور کشمیر تنازعے، سب کے کھرے دہلی ہی میں جاکر نکلتے ہیں۔ توسیعی مون سون سے عبارت بھیگادور، جو چارہزار سال بعد لوٹا ہے، واضح طور پرپاک بھارت تعلقات میں نئی سمت کا تقاضا کرتا ہے۔ مشرقی دریاوں میں بڑے سیلابوں سے نمٹنے اور ان کا تجارتی استعمال ، پانی کی منصفانہ تقسیم اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ پاکستان ، جو اب تک ماحولیاتی بقا کے لیے درکار پانی سے محروم رہا ہے،بیاس پر تصرف کا حقدار ہے۔ اگر بھارت ستلج کو سرسوتی کے احیا اور دریائی جہاز رانی کے لیے اس کے تجارتی استعمال کا سوچ رہا ہے (بحیرہ عرب تک رسائی) تو بھی پاکستان اس حوالے سے منصوبہ بندی کا حصہ بن سکتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ہمسایہ ملک بدلتے موسموں کے المیے سے خود نکلتے ہیں یا پھر دنیا انہیں نکالتی ہے۔