2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

بوجھ بھجکڑ

محمد صغیر قمر
18-01-2025

بھلے وقتوں میں لوگ ہر مرض کی دوا جنتری سے تلاش کر لیا کرتے تھے۔ گائوں کا کوئی بھی سیانا جنتری خرید لیتا پھر وہ تمام لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن جاتا۔ تاریخ معلوم کرنا ہوتی ‘شادی کے دن طے کرنا ہوتے یابچوں کے نام رکھنا ہوتے ‘ سر درد کا تعویذ لکھنا ہوتا یا بھینس کے دودھ کی کمی کی شکایت ہوتی ‘ کسی کو رام کرنا ہوتا ‘قدموں میں جھکانا ہوتا یا بچھڑے کو ملانا ہوتا یا امتحان میں پاس ہونے کا طریقہ معلوم کرنا ہوتا ‘آنے والے کل کا احوال معلوم کرنا ہوتا ‘ دانت درد کے لیے ٹوٹکا چاہیے ہوتا ‘ حکومتوں کو گرانے ‘بنانے اور بادشاہوں کے ذاتی احوال جاننا ہوتے ‘ شہزادے شہزادیوں کی شادی کا معلوم کرنا ہوتا ‘ لوگ اس سیانے کے پاس چلے جاتے اور وہ کمال نخرے سے کچھ رقم لے کرتعویذ لکھ دیتا ‘ آنے والے کل کی خبربتا دیتا ۔ سائل مقصد کی بات جنتری کے ذریعے معلوم کرتا ‘ اسے اپنے خاندان پر سیانے کی طرف سے احسان عظیم گردانتا اور الٹے قدموں رخصت طلب کرتا ۔ ایسا ہی نک چڑھا سیانا جنتری دکھاتے دکھاتے ‘ کل کی خبریں دیتے دیتے تھک گیا تو اس نے گائوں والوں کو جمع کیا اور حکم دیا کہ سب دو زانو بیٹھ جائیں ۔ جب سب لوگ سر جھکا کر بیٹھ گئے تو اس نے گائوں کے لوگوں پر اپنے احسانات عظیم جتانے کے بعد کہاکہ میںنے جنتری کے ریٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ صبح کی نماز کے لیے بھی لوگوں کو اٹھائو ں ۔ اس کام کے لیے میں نے ایک مرغا خریدنا ہے ۔ جس کی رقم بھی گائوں والوں کو ادا کرنا ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ مرغے کا ماہانہ ’’ کرایہ ‘‘ بھی گائوں والوں کو ادا کرنا ہوگا اس کی ’’صفائی ‘‘ اور ’’غسل ‘‘کے لیے اخراجات بھی گائوں والے ہی دیں گے کہ اتنا بڑا احسان تو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ بھلے وقت کی بات ہے ‘ لوگ بھی بھلے تھے۔ سب نے سیانے کی خواہش کے احترام میں سر جھکا دیا۔ سیانے کا مرغا حسب عادت صبح اذان دیتا لوگ جاگ جاتے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ۔ ہر ماہ باقاعدگی سے سیانے کے پاس جاتے شکریہ ادا کرتے اور مرغے پر نذرانہ چڑھا کرلوٹ آتے ۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو سیانے کا روز گار بھی چلتا رہتا لیکن ایک شام گائوں کے کچھ لوگ جمع ہو کر سیانے کے پاس گئے اور ہزار ادب و احترام سے عرض گزار ہوئے ۔ ’’ حضور ! آپ کے مزاج گرامی پر گراں نہ گزرے تو عرض کی جسارت کر سکتے ہیں ؟‘‘ سیانے نے بھاری گردن ہلا کر بولنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ ایک آدمی نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا’’ حضور ! آپ مرغ کی اذان کی قیمت بھی ہم سے لیتے ہیں ؟‘‘ ’’ ہاں لیتا ہوں ۔‘‘ سیانے نے معاملہ بھانپ لیا تھا۔ ’’حضور !!گائوں میں تو سینکڑوں مرغ ہیں جو صبح اذان دیتے ہیں ‘ شیدا ‘ گاما‘ اور نورا سب کے مرغ ہیںلیکن وہ ہم سے پیسے نہیں لیتے۔‘‘ ’’ بکواس بند کرو … شیدے ‘ گامے اور نورے کے مرغے میرے مرغ کی آواز سے جاگتے ہیں اور پھر وہ اذان دیتے ہیں ۔‘‘ ’’ لیکن حضور …‘‘ ’’بکواس بند کرو ۔‘‘ سیانا معاملہ بگڑتے دیکھ کر چیخ اٹھا۔ ’’صبح تک پورے گائوں میں سیانے اور اس کے مرغے کے بارے میں شکوک و شبہات پھیل چکے تھے۔ سرگوشیوں سے بات شروع ہوئی تھی نعروں میں بدل گئی ۔ ہر کوئی اس کھلی بلیک میلنگ پر چلا رہا تھا ‘ سیانے نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایک جگہ جمع کیا اور خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ میں نے تم لوگوں پر بہت احسانات کیے ‘ وہ میں ہی تھا جس نے آپ کو عید کے چاند کی تاریخ بتائی ‘ روزہ رکھنے ‘ کھولنے کا وقت بتایا ‘ نکاح کی تاریخیں اور طلاق کے طریقے بتائے ‘امتحان میں پاس ہونے اوردشمن کو گھٹنوںکے بل گرانے کے تعویذ لکھ کر دیے‘ بھینس کو نظر بد سے بچانے اور بکری کا دودھ بڑھانے کے منتر سکھائے ‘ چھوہاروں کا جوس نکالنے اوراخروٹ کا عرق نچوڑنے کی ترکیبیں میںنے سکھائیں ‘ بخار ‘ ٹی بی ‘ طاعون اور ملیریا کے تعویذ میںنے لکھے ‘ مردے کو نہلانے ‘ کفن پہنانے اور قبر میں اتار کر مٹی ڈالنے کے طریقے میں نے سکھائے ۔ بچھڑوں کو ملانے ‘ چوروں کو پکڑنے اور دانت کے درد کا علاج میںنے بتایا ‘ میں نہ ہوتا ‘ میری جنتری نہ ہوتی تو تم لوگ سسک سسک کر مر جاتے ۔ تم ناشکرے لوگ ہو ‘ میں نہ ہوتا تو میرا مرغا نہ ہوتا تو تم دوپہر تک سوتے رہتے ‘ اﷲ کو یاد کرتے نہ صبح کام پر جا سکتے ‘ کام پر نہ جاتے تو بھوکوں مر جاتے ‘ تمہارے بچے مرتے … میں نہ ہوتا تو رمضان کے روزے تم کس طرح رکھتے … کس مہینے میں رکھتے ’؟ تمہیں معلوم نہ ہو پاتا میرا مرغا نہ ہوتا … میرا مرغا نہ ہوتا …‘‘ یہ کہہ کر سیانے کی آنکھوں میںآنسو اتر آئے آواز بھرا گئی ۔ وہ نیچے جھکا مرغا اٹھایا اپنی بغل میں دبایا ‘ آستین سے آنسو پونچھے اور یہ کہتا ہوا گائوں سے نکل گیا ۔’’ اب میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ کیسے جاگو گے ۔ میں ہوں گا نہ میرا مرغا ‘ پھر دیکھتا ہوں اس گائوں پر صبح کیسے طلوع ہوتی ہے ۔‘‘ سیاناچلا گیا تو قارئین …!آپ کا کیا خیال ہے اس گائوں میں پھر کبھی صبح نہیں ہوئی ہوگی ؟ کار جہاں رک گیا ہوگا ؟ آج کل بھی سر شام آپ کوٹی وی سکرین پر مختلف ’’ سیانے ‘‘ اپنا اپنا مرغا اٹھائے ملیں گے جو دور کی کوڑیاں لاتے ‘اس قوم کے مستقبل کا حال سناتے پاکستان کیوں بنایا گیا تھا اس بارے میں بتاتے ‘ سیاست دانوںکے خطابات لاجواب پر سر دھنتے کشمیر کے دریائوں کا رخ موڑتے ‘ پاکستان میں انقلاب کی نوید سناتے ‘ حکومتوں کے تخت الٹتے اور اپنے اپنے مرغے کی فال ڈالتے ملیں گے۔ کاش! کسی روز کوئی ان کو صرف اتنا کہہ دے کہ وہ اپنا مرغا اور جنتری لے کر نکل جائیں اور آپ کا مرغا نہیں ہوگا تو یہاں صبح طلوع ہوگی۔اس قوم کو مرغا نہ بنائیں آپ کی نوازش ہوگی۔