تعلیم کو حملوں سے بچانے کی ضرورت
عبداللہ طارق سہیل
وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی یوم خواندگی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ تعلیم ہر انسان کا حق ہے۔ شرح خواندگی میں اضافے کیلئے بھرپور کوشش کریں گے۔ خدا کرے ایسا ہو دیکھنا یہ ہے کہ یہ صرف سیاسی بیان ہے یا پھر اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں؟ گزشتہ روز (9 ستمبر) کو تعلیم کو حملوں سے بچانے کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر جھوک سرائیکی میں ہونیوالی ورکشاپ میں مقررین نے کہا کہ ایک طرف عالمی برادری تعلیم کو حملوں سے بچانے کا عالمی دن منا رہی ہے، دوسری طرف فلسطین میں اسرائیلی دہشت گرد تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ بمباری کر رہے ہیں۔ یورپ اسرائیل کی مذمت کی بجائے اُس کا ساتھ دے رہا ہے۔ یہ دوہرا معیار ہے جسے ختم ہونا چاہئے۔ ریاست قطر کی تعلیم دوست محترمہ شیخہ موزا بنت ناصر نے 2019ء میں تجویز دی تھی کہ عالمی سطح پر تعلیم کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجہ میں تعلیمی اداروں اور تعلیمی عمل کو حملوں سے بچانے کیلئے عالمی سطح پر آگاہی کا عمل شروع کیا جائے۔ 16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور پر انسانیت دشمن دہشت گردوں نے صبح کے وقت حملہ کرکے 132 طالب علموں سمیت 141 افراد کو شہید کر دیا۔ اسی طرح افغانستان میں بھی تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور مختلف واقعات میں بہت سے طلبہ شہید ہوئے۔ افغانستان میں تو دہشت گردوں نے صنفی امتیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبات کے تعلیمی اداروں کو بے دردی سے نشانہ بنایا۔سیمینار میں مقررین نے یہ بھی کہا کہ اسلام نے مرد اور خواتین کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔ یہ بھی اتفاق دیکھئے کہ 9 ستمبر کو تعلیم کو حملوں سے بچانے کا عالمی دن قرار دیا جاتا ہے جبکہ 8 ستمبر کو خواندگی کا عالمی دن ہے۔ یہ دن دنیا میں جہالت کے اندھیرے ختم کرنے کا دن ہے اور دنیا کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنا کر آنیوالی نسلوں کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کا دن بھی ہے۔ ضروری ہے کہ بچیوں کی تعلیم کو ہر صورت یقینی بنایا جائے کہ عورت کی تعلیم پورے کنبے کی تعلیم قرار پاتی ہے۔ تعلیم کو حملوں سے بچانے کی بات ہو گی تو وہاں ہر طرح کے حملوں کا ذکر ہو گا۔ طلبہ پر تشدد کے واقعات بھی حملوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اُس کی ایک وجہ اساتذہ کی معاشی بدحالی بھی ہے کہ مدارس کے مدرسین جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اُن کو بہت ہی قلیل تنخواہ دی جاتی ہے۔ ضیاء الحق دور میں تو یہ مذاق بھی ہوا تھا کہ مسجد مکتب سکول کے ٹیچر کو محض اڑھائی سو روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ حکومت نے عام مزدور کیلئے بھی کم سے کم تنخواہ 36 ہزار مقرر کی ہے مگر مدرسوں میں درس دینے والوں کی اکثریت کو پانچ سے دس ہزار کے درمیان تنخواہ ملتی ہے۔ جس سے گزر اوقات مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ غریبوں کے بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیںقرآنی قاعدہ، ناظرہ قرآن مجید، حفظ اور درس نظامی پڑھتے ہوئے ایم اے، ڈبل ایم اے کے برابر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ اُن کی تعلیم کا دورانیہ بعض حالات میں پندرہ سے بیس سال تک چلا جاتا ہے مگر اُن کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور پھر کسی مسجد یا مدرسے میں معمولی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دینی مدارس کے علاوہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بھی برا حال ہے۔ ملک کے ایک دو فیصد پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر باقی تمام اداروں میں ٹیچرز کا استحصال ہوتا ہے۔ آج کے دور میں بھی دیہاتوں میں دو سے پانچ ہزار تک پرائیویٹ سکولوں میں ٹیچرز کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ پڑھانے والی ٹیچرز میں بی اے، ایم اے اور بعض حالات میں ڈبل ایم اے بھی ہوتی ہیں۔ یہ تمام مسائل ہیں جن کا تعلیمی سیمینار میں ذکر ہوا۔ سفارشات تیار کی گئیں اور حکومت کو بھیجی گئیں۔ سیمینار میں کہا گیا کہ بچوں کو دودھ دینے کی بجائے تعلیم فری کریں۔ غریبوں کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہے کہ رعایت دینے کی بجائے فیسوں میں خوفناک اضافہ کر دیا گیا ہے کہ تعلیمی بورڈ نے انٹر کی فیس گیارہ سو سے بڑھا کر 56 سو کر دی ہے۔ سفارشات میں کہا گیا کہ بی ایس پروگرام مکمل ناکام ثابت ہوا ہے اور شرح خواندگی میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے اور غریبوں پر فیسوں کا بوجھ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اسے ختم کرکے سابقہ تعلیمی نظام بحال کیا جائے۔ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی زبان کو آئوٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش بہت بڑا جرم ہے۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔