2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

تعلیم کے لئے نئے نظام کی ضرورت

پروفیسر تنویر صادق
20-01-2025

تعلیم کے حوالے سے بڑی بڑی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔مگر کوئی بنیادی تبدیلی آنے کی توقع نہیں۔ Phd کے نام پر جو ڈائریکٹ کوٹہ دیا جاتا ہے ، وہ کالجوں میں سب سے زیادہ بگاڑ کا باعث ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن یکدم سینئر ہونے کے سبب بہتر پوسٹوں پر استحقاق رکھتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ، میں کالج اساتذہ کا نمائندہ تھا تو ان دنوں سیکرٹری تعلیم نے ایک ایسے شخص کو ایک بڑے کالج کا پرنسپل لگا دیا جس کا سنیارٹی میں بیسواں نمبر تھا۔اتفاق سے مجھے وہ شخص ان دنوں پسند نہیں تھا۔اس شخص سے سینئر چند لوگوں نے شکایت کی کہ دیکھیں ، ہم سے بہت جونیئر کو پرنسپل لگا دیا گیا ہے جب کہ حق ہمارا بنتا ہے۔ میں نے اس وقت کے سیکرٹری تعلیم سے بات کی اور کہا کہ اس کی بجائے کسی سینئر آدمی کو تعینات کیا جائے۔ سیکرٹری تعلیم نے سنیارٹی لسٹ منگوائی اور میرے سامنے رکھ کر کہنے لگے :میں نے بیسویں نمبر والے کو لگایا ہے ۔ اوپر والے انیس لوگوں میں یہ دو اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں ۔ باقی سترہ میں سے تم خود منتخب کر لو کہ جو تمہارے خیال میں اس کالج کو چلا سکتا ہے۔ میں اسی کو لگا دوں گا۔ تم دیانتداری سے فیصلہ کر لو۔ میں نے کئی بار اس لسٹ کو دیکھا ، کیا بتائوں جی چاہ رہا تھا کہ لسٹ ان بندوں سمیت کوڑے دان میں پھینک دوں۔ پی ایچ ڈی کے نام کا ایک کاغذ کا ٹکڑا آپ کو اوپر تو لے آتا ہے مگر آپ اس جگہ کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ ہماری تعلیم کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ پنجاب کے موجودہ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات آج کل ایک ٹیم کے ہمراہ سرکاری کالجوں میں بحیثیت پرنسپل تعینات کرنے کے لئے کالج اساتذہ کے انٹریو لے رہے ہیں۔وہ ان اساتذہ کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ان کی خصوصی طور پر جدید علوم جیسا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سکل پر دسترس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ان کی لیڈرانہ صلاحیتوں، لوگوں سے بات چیت کرنے اور مشکل حالات میں چیزوں کو کنٹرول میں رکھنے کی خوبیوں کو بھی پرکھاجا رہا ہے۔سفارشات تو پورا پینل ،جو انٹرویو کے لئے موجود ہے ، ہی کرے گا مگرحتمی فیصلہ تو بحیثیت چیر مین کمیٹی جناب وزیر تعلیم ہی کریں گے۔ میرے نزدیک ایک اچھا استاد تھوڑا سا سائیکالوجسٹ بھی ہوتا ہے، تھوڑا سا فلسفی بھی ہوتا ہے۔ اچھا ایڈمنسٹریٹر بھی ہوتا ہے جو عام حالات میں انتہائی شفیق مگر کسی ہنگامی صورت میں تھوڑا سا جابر بھی ہوتا ہے۔ اسے کمپیوٹر چلانا آتا ہو یا نہ ہو مگر کمپیوٹر چلانے والوں کو چلانے کا فن پوری طرح جانتا ہو۔ہمارے نوے فیصد کالجوں کے Phd اساتذہ اپنے مضمون کے علاوہ بہت کچھ جانتے ہیں۔ سلیکشن کرتے وقت یہ بھی دیکھ لیں کہ انٹرویو دینے والے کو اپنا مضمون بھی آتا ہے کہ نہیں۔ ہمارے ایک دوست ایسوسی ایٹ پروفیسر کی پوسٹ پر انٹرویو دینے کمیشن کے دفتر میں موجود تھے۔ مگر وہاں وہ خاصے پریشان تھے۔ کسی نے پوچھا، ڈاکٹر صاحب آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں۔ کہنے لگے ، بھائی جلدی میں آیا ہوں اور آنے سے پہلے میں نے اپنا Phd کا مقالہ دیکھا ہی نہیں ۔ سوچ رہا ہوں کسی نے اس کے بارے کچھ پوچھ لیا توکیا جواب دوں گا۔ دوسرے ساتھیوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اگر وہ مقالہ آپ نے خود لکھا ہے تو کیسے بھول گیا۔ آپ نے دو تین سال اس پر مسلسل کام کیا ہے اس کی تو ایک ایک سطر آپ کو یاد ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب ناراض ہو گئے کہ تم لوگوں نے جو کام کیا ہی نہیں اس پر خوامخواہ تبصرہ کر رہے ہو۔کام جیسے بھی کیا ہو ، وقت پر ایک نظر ڈالنا ہوتی ہے۔ یہ کہتے ڈاکٹر صاحب کا چہرا اور اتر گیا۔ اسی دوران ان کے ایک سینئر ساتھی جو انہی کے ہم مضمون تھے باہر جاتے نظر آئے ۔ ڈاکٹر صاحب بھاگ کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ پوچھاکہ آپ کیسے ۔ جواب ملا میں انٹرویو لینے آیا ہوں اور کمیٹی میں ماہر مضمون ہوں۔ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر رنگ آ گیا اور چہکتے ہوئے بولے، بہت اچھے سر، خوش آمدید۔ ڈاکٹر صاحب واپس کمرے میں آئے تو سب پریشانی دور تھی۔ مسکرا مسکرا کر لوگوں سے چھیڑ خانی شروع کر دی۔ بیٹھے ہوئے دوستوں میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ یکا یک یہ کیا ہوا ہے کہ ان کی پریشانی بھی دور ہو گئی ہے اور یہ چہکنے بھی لگے ہیں ۔ دوسرے نے جواب دیا کہ بھائی ان کا اور ماہر مضمون، دونوں کا مقالہ ایک ہی ہے۔ موضوع فرق ڈال کے دونوں ہی نے کسی سے لکھوایا ہوا ہے۔ دونو ں کو نہیں پتہ اس میں کیا ہے۔ پوچھنے والا کیا پوچھے گا۔انہیں ماہر مضمون کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا ہے اس لئے خوش ہیں۔ایک اور ہمارے دوست تھے۔ وہ جہاں بھی انٹرویو دیتے، انٹرویو لینے والے واہ واہ کر اٹھتے اور ان کی فوری سلیکشن ہو جاتی۔پندرہ دن میں ہی ان کے پورے ڈیپارٹمنٹ کو پتہ چل جاتا کہ وہ ذہین کم اور پاگل زیادہ ہیں۔ مگر دیر ہو چکی ہوتی۔ بڑی مشکل سے ان سے جان چھڑائی جاتی۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ وزیر تعلیم کام کا بندہ ڈھونڈھ لیں گے مشکل بات ہے۔ میں عام طور پر یہ بات کہتا ہوں کہ زیادہ تر سینئر جو محکمہ تعلیم کی کالجیٹ برانچ میں کام کر رہے ہیں، انہیں دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی رب العزت رازق ہے۔ وگرنہ وہ لوگ کسی کام کے نہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں کی ڈنگ ٹپائو پالیسیاں ایسے لوگوں کے لئے رزق کی فراوانی مہیا کرتی ہیں ۔ وزیر تعلیم جو کام کر رہے ہیں ، بہر حال اس سے کچھ تو بہتری نکلے گی لیکن یاد رکھیں اصل چیز تجربہ ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔ ایک بات اور کہ اگر وزیر تعلیم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سکل پر ہی زور دینا ہے تو زبانوں کے استاد، عربی، فارسی، انگلش، اردو والے ، سوشل سائنسز کے ٹیچر ، ایجوکیشن کے ماہر اور کئی دوسرے استاد تو کبھی بھی خود کو اس سیٹ کیلئے اہل نہیں پائیں گے۔ان کی داد رسی بھی ضروری ہے۔کمپیوٹر کے کام تو کمپیوٹر کے ماہرین ہی کریں گے لیکن پرنسپل ایسا ہونا چاہئیے کہ جو ماہرین سے کام لینا جانتا ہو، وہ زیادہ اس عہدے کا مستحق ہے۔ ویسے میرے خیال میں وزیر تعلیم کو اس سروس سٹرکچر کو ، جو اب انتہائی بوسیدہ ہو چکاہے ، نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ یہ کام ایک یادگار کام ہو گا۔ مگر اس کے لئے بڑی ہمت اور جرات کی ضرورت ہے جو شاید یہ نظام بھی اپنے پروردہ لوگوں کو مہیا نہیں کرتا۔