2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

ڈونلڈ ٹرمپ اور چیئرمین کِم جونگ اَن کی تاریخی ملاقات

خالد ایچ لودھی
16-06-2018

امریکہ جس نے کہ 1871ء میں کوریا پر حملہ کیا تھا اور پھر 1882ء میں کوریا اور امریکہ میں ایک معاہدہ ہوا جو کہ 1910ء تک برقرار رہا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان نے کوریا پر قبضہ کر لیا۔ سوویت یونین اور امریکہ نے مل کر کوریا کو دو حصوں میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں تقسیم کر دیا یہ دونوں حصے اپنے سرپرستوں کی معاونت سے آپس ہی میں لڑتے رہے یہ تقسیم بالکل اسی طرح تھی کہ جیسے مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی۔ اب بھی روس اور اس کے اتحادی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کو امریکہ یہ دونوں ممالک کوریائی قوموں کو آپس میں لڑاتے چلے آ رہے تھے لیکن دنیا نے اب دیکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چیئرمین کم جونگ ان میں ملاقات ہوئی اس ملاقات کی دراصل بنیاد جنوبی کوریا نے رکھی کیونکہ 27اپریل کو جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کے مابین جنوبی کوریا کے سرحدی علاقے میں ملاقات ہوئی تھی اس ملاقات سے قبل امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان سرد جنگ کا سلسلہ جاری تھا صدر ٹرمپ شمالی کوریا کو تباہ کرنے دھمعی دیتے رہے تھے اور جواب میں کم جونگ ان امریکہ کو انتباہ کرتے رہے کہ امریکہ ان کے میزائلوں کی زد میں ہے اور امریکی جارحیت کا منہ توڑ جوای دیا جائے گا اب حالات تبدیل ہوئے خطے میں سفارتی سرگرمیوں نے اپنا کام کر دکھایا جس کے نتیجے میں سنگا پور کے جزیرہ سیٹوسا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کی ون آن ون ملاقات 38منٹ تک جاری رہی دونوں ممالک کے وفود کی سطح پر بھی ملاقوں کے کئی دور بھی ہوئے خاص طور پر اس موقع پر امریکی صدر کے ہمراہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو ‘ مشیر برائے قومی سلامتی جان بوٹس نے وائٹ ہائوس کے چیف آف سٹاف جان کیلے اور شمالی کوریا کے وفد میں چیف ڈپلومیٹ کم یونگ کول وزیر خارجہ ری بونگ ہو اور ورکرز پارٹی آف کوریا کی مرکزی کمیٹی کے نائب چیئرمین ری سویونگ شریک ہوئے اس موقع پر 27اپریل کو جنوبی کوریا میں ہونے والے مذاکرات میں طے پانے والے سمجھوتے پر عملدرآمد کرنے کا باقاعدہ اعادہ کیا گیا۔ مذکورہ سمجھوتے میں ویت نام جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے امریکی فوجیوں کی باقیات تلاش کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ملنے والی باقیات کو فوری طور پر امریکہ کے حوالے کرنے پر بھی رضا مندی کا اظہار کیا گیا سمجھوتے پر دستخط کے بعد صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین کم جونگ ان کو باصلاحیت شخص قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں کم جونگ ان نے غیر مشروط طور پر جزیرہ نما کوریا سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی یقین دہانی کروائی۔ ذرا تصور کریں کہ جاپان اور جنوبی کوریا یہ دونوں ممالک شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی بھی زد پر تھے جس کی بنا پر جاپان کی تشویش بلا جواز نہ تھی اور ساتھ یہ امریکہ کو بھی اس امر کا خدشہ تھا کہ شمالی کوریا کسی بھی وقت امریکہ کے خلاف بھی جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے یہ حیقیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ صدر ٹرمپ کی بجائے کوئی امریکی صدر ہوتا تو پھر اتنی جلد بریک تھرو بھی نہ ممکن تھا جبکہ امریکہ میں دائیں بازو سے لے کر امریکہ کے وسیع فیصلہ ساز حلقوں تک شمالی کوریا کے بارے میں سخت رائے پائی جاتی ہے امریکی چاہتے تھے کہ شمالی کوریا کا پورا جوہری پروگرام یکسر ختم ہو اسی تناظر میں جب امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن نے کہا تھا کہ ہمارے سامنے لیبیا کا ماڈل موجود ہے جہاں کرنل قذافی نے اپنا تمام جوہری پروگرام ختم کر دیا تھا اس طرح کے بیانات کے بعد شمالی کوریا نے اپنا رویہ بدلا اور ایک بار پھر امریکی حکومت کے خلاف سفارتی سطح پر بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سنگا پور میں ہونے والی ملاقات نہ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی تھی لیکن آخر کار خود امریکہ کو شمالی کوریا کے آگے جھکنا پڑا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ دنیا کی سپر طاقت کو شمالی کوریا جیسے ملک جس کے پاس صرف چھ یا سات سے زائد جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اس کے آگے ڈھیر ہو گیا اور امریکی صدر کو شمالی کوریا کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے پڑے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ کم جونگ ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ان کے اپنے ملک میں ہے بیرون ملک نہ تو اس کے کوئی اثاثے ہیں نہ ہی کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی کسی غیر ملکی بنک میں کوئی اکائونٹ ہے اس بنا پر تو اس نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور پھر اپنے ملک کے جوہری ہتھیاروں کو کسی دبائو کے تحت ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور خود مختاری کو عالمی سطح پر منوایا۔ کرنل قذافی کی طرح اپنے جوہری اثاثوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا پروگرام نہیں دیا کرنل قذافی نے فوراً ہی لیبیا کی تمام جوہری تنصیبات ختم کر کے اپنے تمام جوہری اثاثے امریکہ کے حوالے کر دیے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کرنل قذافی کو ان کے اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مروا دیا گیا اور آج لیبیا اپنی تیل کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے لیبیا کا تیل اب مغربی طاقتوں کے قبضے میں ہے جبکہ لیبیا بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ ہمارے اپنے ملک پاکستان کے حکمران جب امریکہ جاتے ہیں تو امریکی حکام کے آگے سر خم تسلیم کرلیتے ہیں اور امریکی تھپکی بر خوش ہو کر واپس پاکستان لوٹتے ہیں کہ اب ہمارا اقتدار قائم رہے گا ماضی میں یہ عالم تھا کہ میاں نواز شریف مریکہ تشریف لے گئے اور صدر بارک اوباما کے سامنے چند جملے ادا کرنے کے لیے اپنی جیب سے لکھا ہوا کاغذ نکال کر پڑھنا شروع ہو گئے اس سے پہلے شریف برادران امریکہ جاتے رہے اور بل کلنٹن سے بار بار درخواست کرتے رہے کہ ہمارا اقتدار بچایا جائے اس کے علاوہ پاکستان میں جب حکومتیں تشکیل پاتی ہیں تو امریکی مشاورت اس میں برابر شامل ہوتی ہے۔ شمالی کوریا سے زیادہ جوہری ذخیرے ہمارے اس ہیں عالم اسلام کی واحد مملکت ہم ہیں جو کہ ایٹمی طاقت ہے ہماری کیا مجبوریاں ہیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ابھی تک نہ تو خود مختار ہیں اور نہ ہی امریکی اور دیگر مغربی طاقتوں کے اثر ورسوخ سے آزاد ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اثاثے اور جائیدادیں اور بنک اکائونٹس بیرون ملک مغربی بنکوں میں ہیں اور اب یقین جانیے کہ مغربی ممالک بھی اس یہ جان چکے ہیں کہ پاکستانی حکمران قومی سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک لاتے ہیں اور ان ممالک میں ان کی جائیدادیں اور اثاثے موجود ہیں اور غور کریں کہ ہم نے امریکہ کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑی اپنے فوجی جوان شہید کروائے شہری ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان میدان جنگ بن گیا پورا ملک امریکی سی آئی اے کے نیٹ ورک پر رہا اس سے ہمیں کیا حاصل ہوا؟ ذرا سوچیے کہ جب امریکی مفادات ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی مجبوریاں ختم ہوتی ہیں تو پھر پاکستان کو دھتکارا جاتا ہے اور پھر پاکستان کے جوہری پروگرام پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ شمالی کوریا کے چیئرمین کم جونگ ان اپنے ملک کے مضبوط ترین رہنما ہیں اس ملک میں انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیاں ہیں لیکن دوسری جانب کورین ورکرز پارٹی جو کہ حکمران جماعت ہے اس کا مکمل کنٹرول ہے اس ملک کے کسی بھی حکومتی فرد کا نہ تو کوئی غیر ملکی بنک اکائونٹ ہے اور نہ ہی لندن میں کوئی اثاثہ ہے اور نہ ہی کسی کی کوئی آف نیوز کمپنی ہے کوریا کے رہنمائوں کا جو کچھ بھی ہے وہ ان کے اپنے ملک میں ہے تب ہی تو آج دنیا کی سپر طاقت ان کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے مگر ہمارے حکمران برابری کی طرح پر کیوں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام ہیں آج کشمیر میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام جاری ہے بھارت کشمیر میں دہشت گردی کر رہا ہے ہم ہیں کہ بھارت کو ریاستی دہشت گرد کا درجہ دلوانے میں بھی ہر طرح سے ناکام ہیں امریکہ بھارت کا ہم نوا بنا ہوا ہے آخر کیوں؟برابری کی بنیاد پر بھارت کو مجبور کر کے کشمیر کی آزادی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔