2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

دل نال فرید دا وعظ سنو !

ظہور دھریجہ
27-04-2025

آج پوری دنیا میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی ہے جس طرح ہم عالمی سطح پرمنظر نامے کو دیکھتے ہیں تو امریکا سے لیکر ایران تک خصوصاً جب ہم اپنے ہمسایہ ملک بھارت کو دیکھتے ہیں تو بھارت نے انتہاء پسندی کی حد کی ہوئی ہے اور کشمیر کے حالات کے سب کے سامنے ہیں ، اس کے علاوہ بھارت نے آبی جارحیت بھی شروع کررکھی ہے اور پاکستان کو کربلا بنانے کی ٹھان رکھی ہے تو ان حالات میں بہت ضرورت ہے کہ عدم برداشت ، انتہاء پسندی ، دہشت گردی بند ہو، اس کیلئے ہم صوفیا کی تعلیمات خصوصاً خواجہ غلام فریدؒ کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت کچھ سمجھنے کو ملتا ہے، ہم نے امن کی بات بھی کرنی ہے، محبت کی بات بھی کرنی ہے اور اگر بھارت یا کوئی اور ملک جارحیت پر اُترتا ہے تو پھر اس کو بھر پور جواب بھی دینا ہے اور سبق بھی سکھانا ہے یہ ایک الگ بات ہے۔ مجھے یہ تمام باتیں پروفیسر نذیر احمد بزمی کی نئی آنے والی کتاب کو دیکھ کر یاد آئی ہیں۔ خواجہ فرید کے منتخب سرائیکی اشعار کا اُردو ترجمہ،ماشاء اللہ ، نذیر بزمی نے فریدیات کے میدان میں قدم رکھا ہے جوکہ خوش آئند ہے،یہ ابتدا ہے، مجھے امید ہے کہ بزمی صاحب اس کام کو آگے بڑھائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواجہ فریدؒ کے فکر و فن پر ایک صدی سے کام ہو رہا ہے،سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کلامِ فرید کے رموز و اسرار کی گتھیاں سلجھائیں، تحقیق کے کام کو آگے بڑھا یا، دیوان فرید کے اردو انگریزی میں تراجم بھی ہوئے جو کہ فریدیات کے طالب علموں کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ نذیر احمد بزمی کا منتخب اشعار کا ترجمہ فریدیات میںموثر حوالہ بنے گا۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوںکہ نذیر بزمی کا یہ کام خواجہ فریدؒ کی شاعری کا جائزہ نہیں بلکہ سادہ لفظوں میں ترجمے کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں ایک ایسی سوغات ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خواجہ فریدؒ کے کلام میں عشق کی وارداتوں کے سوا کیا رکھا ہے۔ نذیر بزمی کی یہ کتاب ان کی بات کو غلط ثابت کر رہی ہے کہ منتخب اشعار میں صرف عشق مجازی نہیں بلکہ عشق حقیقی بھی شامل ہے، تصوف ومعرفت کا سمندر بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے، بلاشبہ دیوان فرید سرائیکی شاعری کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا قلمی عجوبہ ہے جسے دیکھنے اور جاننے کی سب خواہش کرتے ہیں۔ نذیر بزمی کا فریدیات کی دنیا میں قدم رکھنا اس سلسلے کی کڑی ہے اور یقینا ان کے کام کو پسند کیا جائے گا۔ ایک سرکاری ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے ان کو دن رات لکھنے پڑھنے سے کام ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات اور رسائل میں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ کتابیںبھی لکھ رہے ہیں،یہ پانچویں کتاب ہے، متعدد کتابیں زیر طبع ہیں۔ دھریجہ ادبی اکیڈمی کے چیئرمین کی حیثیت سے تقریبات کا سلسلہ پورا سال جاری رہتا ہے، لائبریری بھی بنا رکھی ہے، دیگر مضامین کے علاوہ سرائیکی پڑھنے والے طلبا کی بھر پور مدد کرتے ہیں، ان کا گھر سرائیکی علم و ادب کا مرکز بن گیا ہے۔ مہمان نواز ہیں، ہر آنے والے مہمان کی تکریم کے ساتھ خاطرمدارت کرتے ہیں اور رخصتی پر علمی ادبی کتابوں کے تحائف پیش کرتے ہیں۔ نذیر بزمی کی خوش قسمتی ہے کہ اب ان کو حاجی عید احمد صاحب کی صورت میں سرائیکی علم و ادب سے آگاہی رکھنے والا دوست مل گیا ہے،اب دھریجہ نگر میں علمی ادبی و ثقافتی تقریبات کے ساتھ، تحقیق و ریسرچ کا کام بھی ہو رہا ہے۔ چھوٹے بھائی محروم ایوب دھریجہ کے بعد نذیر احمد بزمی اور حاجی عید احمد ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں جو کہ میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔ نذیر احمد بزمی نے مجھے اپنی کتاب بارے لکھنے کو کہا ہے، کیا لکھوں؟ دل بہت دکھی ہے، پچھلے ہفتے ایران کے صوبہ سیستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 8مزدوروں کی میتوں کو بہاول پور کے مختلف علاقوں میںدفنا کر آئے ، اس سے پہلے وزیرستان بلوچستان سے بھی وسیب مزدوروں کی لاشیں آتی رہی ہیں۔ یہ درندگی اور بربریت کیوں ہے؟ دہشت گرد حیوان کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اس لئے کہ شاید خواجہ فرید ؒکے کلام کا مطالعہ انہوں نے نہیں کیا،خواجہ فرید نے اپنی دھرتی، اپنی مٹی، اپنے وسیب سے محبت کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت دوستی کادرس دیا ہے۔’’اَکھیاں وچ قطر نہ ماوے،سارے سجٖنْ سماندے‘‘ کہہ کر پوری کائنات کیلئے انسان دوستی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔ خواجہ فرید ؒنے وقت کے بادشاہ کو کائنات کا مختصر ترین خط ’’صادق!زِیر تھی زبر نہ بنْ، متاں پیش پووی‘‘لکھ کر اعراب ’’زبر، زیر، پیش‘‘ کے ذریعے انسانوں میں زندگی گزارنے کا پورا فلسفہ بیان کر دیا۔ یہ فلسفہ کوئی عام آدمی بیان نہیں کر سکتا بلکہ وہ شخص بیان کر سکتا ہے جس پر عطا ہو، کاش! فرعون صفت گمراہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ نذیر احمدبزمی نے تفہیم فرید کے حوالے سے اچھا قدم اٹھایا ہے، باردیگر کہوںگا کہ خواجہ فرید ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے اوربہت سے موضوعات ہیں جن میں خواجہ فریدؒ کی شخصیت کا سماجی پہلو، تعلیمی نظریات، وحدۃ الوجود،انسان دوستی، فطرت نگاری، دھرتی سے محبت اور اس طرح کے بیسیوں موضوعات پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ خواجہ فریدؒ سرائیکی وسیب کے بے تاج بادشاہ ہیں، اُن کو شاہوں کے شہنشاہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ مقولہ ہے کہ ’’بادشاہ کا کلام،کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے‘‘ ایسے کلام کو دل کی آنکھ سے دیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی بناء پر خواجہ صاحب نے خود ہی فرمایا کہ ’’دل نال فرید دا وعظ سُنْو‘‘ آپ کا یہی فرمان اسی کتاب کا عنوان ٹھہرا۔ خوبصورت نام کی حامل کتاب کی اشاعت پر بزمی صاحب کو بہت بہت مبارک۔