2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

روش انٹرنیشنل کی گولڈن جوبلی

سعد الله شاہ
27-04-2025

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو کارفرہاد سے یہ کم تو نہیں جو کیا ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو ایک شعر اور دیکھیے تو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیے ہیں تیری آسانی کو آج کا کالم تو ادبی تنظیم روش انٹرنیشنل کے نام ہے۔ گزشتہ دنوں اس تنظیم کی 25سالہ گولڈن جوبلی منائی گئی اس تنظیم کا امتیاز یہ ہے کہ یہ صرف ادب کے ضمن میں ہی کارہائے نمایاں نہیں کرتی بلکہ ہر وقت سوشل ورک کرنے میں بھی مصروف ہے۔ اس میں ضرورت مند ادیبوں اور شاعروں کی ہی مدد نہیں کی جاتی تمام سطح پر بیوہ اور مفلوک الحال لوگوں کو بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے لئے مدد دی جاتی ہے۔زلزلہ ہو یا کوئی آفت یہ لوگ اس میں اعانت کرتے ہیں وہی کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں روش انٹرنیشنل کے روح رواں حاجی عبدالستار اور اس کے بانی ثناء اللہ شاہ نے چشتیاں میں ایک رونق لگا رکھی تھی۔خوشی اس بات کہ وہاں کے ڈی ایس پی اکمل بصرا خاص طور آخری وقت تک مشاعرہ سنتے رہے ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔صدارت میرے حصے میں آئی تھی۔ نظامت علی شاہ نے کی اور خوب کی۔ اچھا لگتا ہے کہ ایسے نوجوان اردو زبان کو درست ادائیگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ حیرت یہ کہ علی شاہ نے تمام شعرا کے اشعار بھی ہنر مندی سے ادا کئے۔ تلاوت قرآن پاک سے حسن شاہ نے تقریب کا آغاز کیا پہلے مقامی شعرا نے کلام پیش کیا: پیش خیمہ ہے شناور یہ کسی طوفان کا سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں (عمران شناور) اب بات کرتے ہیں لاہور اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے شعرا کی اس سے پیشتر یہ بھی بتا دوں کہ تمام مہمان شعرا کا استقبال بھی کمال انداز کا تھا۔ آتش بازی میں انار یعنی دو رویہ ماحول جگمگا اٹھا کیمروں کے ساتھ ساتھ پھولوں کی بارش اک عجب مہک تھی رات کی خنک ہوا میں یہ سب زندگی کے رنگ ہیں۔ ایک اور بات کہ کمپنیوں نے تحائف وغیرہ ہی سپانسر نہیں کئے بلکہ ٹپال والوں نے باقاعدہ چائے کا سٹال لگایا شاید ہمارے لاہور والے بھی ایسا اہتمام نہ کر سکیں، شعرا میں عرفان جمیل اسلام آباد سے تشریف لائے تھے ان کا شعر دیکھیے: جن عمروں میں خواب سنہرے ہوتے ہیں چاند کو ملنے پر کیوںپہرے ہوتے ہیں راولپنڈی سے ڈاکٹر فرحت عباس آئے۔ لاہور سے اکرام عارفی ڈاکٹر عامر سہیل کامونکی سے راحیلہ اشرف۔ امن شہزادی بھی لاہور سے تھیں جنہیں خوب سنا گیا شعر خود اپنی جگہ بناتا ہے: دروازے پر تالا ہو تو پھر بھی دستک دے دینا نام تو شامل ہو جائے گا دستک دینے والوں میں خدا کرے کہ کبھی بات بھی نہ کر پائیں یہ جتنے لوگ ترے آگے اونچا بولتے ہیں ہمارے شوق صاحب نے بھی اپنا مزاحیہ رنگ جمایا: میرے سِر توں پگ لتھی تیرے سروں دوپٹہ دوہاں دے سر کھہ پئی تے دوہاں دے سر گھٹا مشاعرہ اصل میں ہوتا ہی حاضرین کے ساتھ ہے وہاں تو سننے والے واقعتاً باذوق تھے اچھے شعر پر ہال گونج اٹھتا تھا۔ راحیلہ اشرف کو بھی بہت داد ملی۔ وہ اچھا شعر کہتی ہیں: کیا ہوا مجھ سے اگر وہ ہے گریزاں اتنا اس کی خاطر بھی یہاں کون مرا جاتا ہے فیصل آباد سے گلفام نقوی آئی ہوئی تھیں اس نے وہاں روش کی شمع میں جلا رکھی ہے اس کا شعر دیکھیے: نہ زندگی کا نہ زلفوں کا خم نکلتا ہے سنائوں داستاں اپنی تو دم نکلتا ہے پتہ چلا کہ وہاں کے کرائوڈ کو یونس تحسین سے عشق ہے اس پر تو پیسوں کی بارش بھی ہوئی اس کا کمال یہ کہ وہ جہاں حضرت علی السلام کا تذکرہ کرتا ہے وہیںدوسرے خلفائے راشدین کی تحسین میں شعر کہتا ہے اس کے دو شعر: تو ہمیں خاک میں اگنے سے اگر روکے گا ہم جنونی کسی پتھرنکل آئیں گے ہم چراغوں سے اگر روشنی چھینی تونے ہم بھی سورج کے برابر سے نکل آئیں گے میں منتظمین کا نام پہلے لکھ دوں کہ جنہوں نے اتنا شاندار مشاعرہ منعقد کیا۔ نسیم صادق‘ بلال رفیق‘ اللہ داد پراچہ‘ کاشف رفیق‘ چوہدری محمود‘ سیٹھ رضا‘ چوہدری سرور‘ ساجد اظہر اور آصف سندھو ۔ اب شعرا کے چند اشعار : اس درد کی تحویل میں رہتے ہوئے مجھ کو چپ چاپ بکھرنا ہے تماشہ نہیں بننا تم کسی اور کی محبت ہو اتفاقاً ہو دستیاب مجھے (عامر سہیل) تیری آنکھوں کا نام آنکھیں ہے تیری آنکھوں کا نام دل تو نہیں (اکرام عارفی) اب میرے صدارتی شعروں کی تو ضرورت نہیں۔ آخر میں ایک دفعہ پھر حمید احمد صدیقی‘ عبدالستار صاحب اور ثناء اللہ کا شکریہ اپنے دوست عبدالجبار کا بھی شکریہ جن شعرا کے شعر رہ گئے ان سے معذرت کالم ختم ہوا۔ ٭٭٭٭