سول نا فرمانی : 16 دسمبرسے ہی کیوں؟
آصف محمود
پاکستان تحریک انصاف نے اب 14 دسمبر کی بجائے 16 دسمبر سے سول نا فرمانی کی تحریک کا اعلان کر دیا ہے ۔ سیاست کی فالٹ لائن سے دور ، میرے جیسے عام شہری کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ 16 دسمبر سے ہی کیوں؟ اس تاریخ کا انتخاب اتفاق ہے یا یہ اہتمام ہے؟ یہ دعوی تو جناب عمران خان خود کر چکے ہیں کہ وہ مائنڈ گیم کے ماہر ہیں۔ تو کیا سول نافرمانی کی تحریک کے لیے 16 دسمبر کا انتخاب بھی مائنڈ گیم کا حصہ ہے؟ یاد رہے کہ 2014 میں جب عمران خان نے انتخابی نتائج پر احتجاج کرتے ہوئے پورا ملک بند کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی اسی 16 دسمبر کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس پر شور مچا اور تنقید ہوئی کہ اس تاریخ کو ملک بند کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ کوئی خاص ملفوف پیغام دیا جا رہا ہے یا یہ محض ایک اتفاق ہے ا ور غلطی سے یہ دن چن لیا گیا ہے؟ تنقیدبڑھی تو کہا گیاکہ ا س تاریخ کو ملک بند کرنے کے اعلان میں کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔خان صاحب سادہ سے آدمی ہیں انہوں نے ایک تاریخ دے دی تو اب ہم اس تاریخ کو تبدیل کر رہے ہیں۔ چنانچہ یہ تاریخ بدل دی گئی۔ اب دس سال بعد سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان ہوا ہے تو ایک بار پھر وہی 16 دسمبر تارخ چنی گئی ہے اور ایک بار پھر وہی سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔پہلی بار 16 دسمبر کے دن کا انتخاب کیا گیا تو اسے اتفاق کہنے کی گنجائش موجود تھی۔ اب جب دوسری بار بھی یہی دن چنا گیا ہے تو اس سوال کی سنگینی میں اضافہ ہوگیا ہے کہ کیا اسے بھی اتفاق کہنے کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ دس سال پہلے، یعنی 2014میں ، جب فیصلہ ہوا تو کہا گیا کہ بس جلدی میں فیصلہ کر لیا گیا اب ہم اس کو بدل رہے ہیں۔ اب جو فیصلہ ہوا ہے اس کے بارے میں تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ جلدی میں ہوا ہے ۔ اب کی بار تو 14 تاریخ کو بدل کر 16 دسمبر کیا گیا ہے۔ یعنی اس دفعہ جو بھی ہوا ہے خوب غورو فکر کے ساتھ ہوا ہے ، سوچ سمجھ کر ہوا ہے اورشعوری طور پر ہوا ہے۔ بعض ایام کی ایک خاص معنویت ہوتی ہے۔ 16 دسمبر بھی ایک ایسا ہی دن ہے۔ اس روز پاکستان دو لخت ہوا تھا ۔ اس روز اگر کوئی سیاسی جماعت ملک بند کرنے کا اعلان کرتی ہے یا سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرتی ہے تو سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں ، 16 دسمبر ہی کو دہشت گردی کی درددناک واردات ہوئی تھی جس میں 132 بچے شہید ہو گئے تھے۔یہ بھی کوئی معمولی سانحہ نہیں۔ ایک دردناک باب ہے۔ اس میں بھی یہ پہلو قابل غور ہے کہ دشمن نے اس واردات کے لیے 16 دسمبر کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ جواب بڑا سادہ ہے کہ قوم کی اجتماعی نفسیات کو کچوکہ لگایا تھا۔ زخم پر نمک چھڑکا گیا۔ پرانے زخم کو ادھیڑ کر اذیت دی گئی۔ یہ ایک سوگوار دن ہے۔ اس دن زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ یہ دن دکھی کر دیتا ہے۔ عقل و فہم کا تقاضا ہے کہ اس روز اہل سیاست کی سرگرمی کی نوعیت کچھ اور ہونی چاہیے۔ احتجاجی سیاست ایک دن بعد سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔ اس دن کے حوالے سے عمومی حساسیت کو نظر انداز کرنا یا اس دن کی حساسیت ہی کو نشانے پر رکھنا ، یہ دونوں رویے صحت مند علامت نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں تاثر کی اہمیت حقیقت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی افتاد طبع سے اپنے بارے میں کیسا تاثر چھوڑ رہی ہے۔ ایک اچھی جماعت تھی ، خواب دیکھنے والے نوجوان اس کا حصہ بنے تھے۔ یہ پوٹینشل اب بھی ختم نہیں ہوا ۔ سیاسی بصیرت سے فیصلے کیے جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن جس راستے پر یہ چل نکلی ہے یہ راستہ سیاست کا ہے ہی نہیں۔ یہ راستہ کہیں اور جاتا ہے ۔تحریک انصاف کے تاثر کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس وقت اس کی ٹائمنگ ہے۔ پہلے اس پر یہ سوالات اٹھ رہے تھے کہ کیا وجہ ہے جب بھی ملک میں کوئی اہم غیر ملکی شخصیت آتی ہے تحریک انصاف احتجاج کی کال دے دیتی ہے اور اب یہ تازہ سوال جنم لے چکا ہے کہ ملک بند کرنے سے لے کر سول نافرمانی تک 16 دسمبر کی تاریخ پر ہی اصرار کیوں؟ سول نافرمانی کی تحریک کس حد تک کامیاب ہو گی ، یہ ایک الگ سوال ہے۔ ماضی میں جب عمران خان صاحب نے بجلی کا بل جلایا اور کہا کہ کوئی بل نہ دے تو یہ بھی سول نافرمانی ہی تو تھی؟ جب اوورسیز پاکستانیوں سے کہا گیا کہ پاکستان میں رقوم نہ بھیجیں تو یہ سول نافرمانی ہی تھی۔ اب کی بار اس میں کیا نئی بات ہے اور یہ کس طرح کامیاب ہو گی؟ اس کی جزئیات پراور اس سے جڑے معاشی اور قانونی معاملات پر کسی اور نشست میں بات کریں گے ، سر دست یہ موضوع نہیں ہے۔ اس وقت موضوع صرف یہ ہے کہ آپ ملک بند کریں یا سول نافرمانی کا اعلان کریں ، ہر دو صورتوں میں نگاہ انتخاب 16 دسمبر پر ہی کیوں آن ٹھہرتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہت بہتر ہوچکے ہیں۔ ان تعلقات سے بھارت کی بڑھتی ہوئی پریشانی بھی عیاں ہے۔ بھارت کی فرسٹریشن بڑھ رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھارتی سامراج کا شکنجہ ٹوٹ چکا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست تجارت کی شروعات ہو چکی ہیں۔ کراچی سے چٹا گانگ کی سمندری مسافت سمٹ رہی ہے۔ اس منظر نامے میں اگر 16 دسمبر ہی کو پاکستان میں داخلی بحران کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تواس کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں ۔سیاسی بھی ، نفسیاتی بھی ، معاشی بھی اور تزویراتی بھی۔ کیا یہی مقصود ہے؟ یا سیاست کی شدت جذبات میں اس اہم پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے؟یہاں اہم اور پریشان کن بات یہ ہے کہ شیخ مجیب نے بھی پہلے مرحلے میں سول نافرمانی ہی کی کال دی تھی۔ سول نافرمانی کے ساتھ ساتھ آخری کارڈ کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ اگر چہ اس آخری کارڈ کے ظہور کو فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے، تاہم دل ڈرتا ہے یہ آخری کارڈ اس راستے کی کوئی کھائی نہ بن جائے۔ سول نافرمانی کی تحریک کے بعد آخری کارڈ کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد وہ کون سا مقام شوق ہے جہاں پہنچنا مقصود ہے؟ ٭٭٭٭