2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

سیلاب اس ملک کو پانی پانی کر دے گا

پروفیسر تنویر صادق
27-04-2025

ہر جگہ اور ہر فورم میں بلوچستان کی بگڑی ہوئی صورت حال پر بات چیت ہوتی ہے۔ بلوچستان کے مسائل بڑی درد مندی سے پیش کرتے ہیں۔ وہاں کے سرداروں کا کردار، ان کے عام لوگوں کی حالت زار ، وہاں کے معدنی وسائل اور بہت سی چیزیں زیر بحث رہنے کے باوجود نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ بڑی لمبی لمبی باتیں بنانے والوں کے پاس بلوچستان کے مسائل کا کوئی حل نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے کہ ہم عادتاً تنقید کے تو عادی ہیں مگر تعمیر کاسوچتے ہی نہیں۔ضرورت اس وقت اس چیز کی ہے کہ ہم سوچیں کہ بلوچستان کے اصل مسائل کیاہیں اور کیوں ہیں۔ وہاں کے عوام کو کیسے مطمن کیا جا سکتا ہے۔ لڑائی ہر دو فریقوں کو کمزور کرتی ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ ہر لڑائی کے بعد بھی مسائل مل بیٹھ کر اور سوچ بچار ہی سے حل ہوتے ہیں۔ڈائیلاگ ہی واحد حل سمجھا جاتا ہے۔طاقت کا استعمال ہمیشہ ناپسندیدہ رہا ہے اور اس کا انجام بھی کبھی اچھا نہیں ہوا۔طاقت کے استعمال کے باوجود مسئلہ وقتی طور پر چاہے دب تو سکتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اس کا رقبہ 347,190 مربع کلو میٹر ہے اور یہ پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد ہے۔اتنے وسیع علاقے میں آبادی فقط ڈیڑھ کروڑ ہے۔شمال میںافغانستان ہے جس سے بلوچستان کا بارڈر 1468 کلومیٹر لمبا ہے۔ مغرب میںایران کی 909 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ ان سرحدوں پر ہر دو ملکوں کے ساتھ تجارت بھی ہوتی ہے لیکن یہاں سکیورٹی اور سمگلنگ کے بھی شدید مسائل ہیں۔جنوب میں760 کلومیٹر سمندر کا ساحل ہے، جہاں گوادر اور پسنی دو مشہور بندر گائیں بھی ہیں۔مشرق میں صوبہ سندھ ہے۔ 12 لاکھ کی آبادی والا شہر کوئٹہ اس کا صدر مقام ہے ۔اس صوبے کی زیادہ آبادی بلوچ، پشتون اور بروہی لوگوں پر مشتمل ہے۔یہاں کا صحرا، مکران 36000 کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔یہ صوبہ معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے اس لئے بہت سی بیرونی قوتوں کی ان معدنیات پر ہمیشہ نظر رہی ہے۔ قدرتی گیس کے علاوہ کوئلہ، کاپراور سونا یہاں کی خاص معدنیات ہیں۔ بلوچستان میں بہت سے دریا بہتے ہیں۔ جن میں دشت، حب، ژوب، ہنگول، مولا، بولان، ناری اور پورالی شامل ہیں۔ کچھ دریا سارا سال بہتے ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو چند ماہ تو بڑا زور شور دکھاتے ہیں مگر بعد میں نالے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں یا مکمل خالی ہو جاتے ہیں۔دو دریا، دریائے ناری اور پورالی سارا سال بہتے ہیں۔ دریائے ناری بلوچستان کے شمال مشرقی حصے کے 69200 مربع کلومیٹر رقبے کو سیراب کرتا ہے ۔ یہ بلوچستان کا سب سے بڑا اور سندھ کا معاون دریا ہے۔بلوچستان کے بعد یہ سندھ کی کنچھر اور دوسری جھیلوں کو پانی فراہم کرتا دریائے سندھ میں خود کو کھو دیتا ہے۔دریائے پورالی بلوچستان کے جنوب مشرق میں وہاں کے 11600 مربع کلومیٹر رقبے کو سیراب کرتا سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ حنا لیک کوہٹہ کے قریب پہاڑوں میں گری ایک شاندار جھیل ہے جس میں سارا سال پانی رہتا ہے۔ لیکن موسمی جھیلیں پورے بلوچستان میں کثرت سے ہیں۔ ان جھیلوں کو سیراب یا بارشوں کے دوران ریزروائر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے مگر ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر حکومت اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ یہاں کی معدنیات پر حکومت کام کر رہی ہے۔ مگر زیادہ تر کام وہی ہے جو انگریزوں کے دور میں ہوا ۔ موجودہ حکومتیں یہ تو جانتی ہیں کہ کہاں کہاں کون سی معدنیات ہیں۔ مگر کوئی بڑی پیش رفت دکھائی نہیں دی۔میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں بلوچستان سے معدنیات کے حصول کے لئے سب سے پہلے بلوچستان کی امن و امان کی صورت کو بہتر کرنا زیادہ ضروری ہے۔ امریکہ کا ایک صوبہ الاسکا ہے۔برف سے ڈھکا یہ صوبہ معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے ۔ بہت بڑی پیمانے پر تیل کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔ اس صوبے کی آبادی بھی کافی کم ہے۔وہاں معدنیات کی جو آمدن آتی ہے اس میں سے سب سے پہلے وفاقی حکومت اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ پھر وہاں کی لوکل حکومت کو بھی حصہ ملتا ہے اور سب سے آخر میں جس علاقے سے معدنیات نکالی جاتی ہے وہاں کے ہر رہائشی کو ، اگر اس کی رہائشی مدت چھ ماہ سے زیادہ ہو گئی ہو ، تو اسے بھی اس کا حصہ ملتا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگ ہر سال ایک ہزار سے لے کر چار ہزار ڈالر تک سالانہ وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑی رقم ہے جو مقامی لوگوں کے لئے انتہائی پر کشش ہوتی ہے۔نہروں اور پانی کے مسئلے پر وفاق اور صوبوں کے درمیان زبردست سیاست جاری ہے۔ سیاست کرنے والوں میں سے ایک کا موقف ہے کہ پانی نہیں ہے ۔ نہریں فضول نکالی جا رہی ہیں۔ دوسرے کا موقف ہے کہ نہریں تبھی کام کریں گی کہ جب پانی ہو گا۔سب فریقوں کو حقیقت کا علم ہے ۔ آج کل کے دنوں میں پانی دریائوں میں ہوتا ہی نہیں، اس لئے نہریں جو نکالی جائیں گی ان دنوں خشک ہی رہیں گی۔ لیکن چند دنوں کی بات ہے، بارشیں شروع ہونے والی ہیں، سیلاب کی بھی آمد آمد ہے۔ اس قدر پانی ہو گا کہ مزیددس نہریں بھی ہوں تو پانی پانی ہو جائیں گی۔یہ نہریں انہی دنوں کے لئے ہیں ۔ وہ دن جب بے شمار پانی سمندر کی طرف گامزن ہو گا۔ یہ نہریں اسی پانی کو سمیٹیں گی۔ مگر جانے کیوں سندھ والوں کو لگتا ہے کہ نہریں بن گئیں تو ان کا سمندر پیاسا رہ جائے گا۔انہیں حوصلہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن سیاست کے اپنے معیار ہیں انہیں کسی کی بات کبھی سمجھ نہیں آتی۔ میں تو دعاگو ہوں ان انگریزوں کا کہ جو بھلے وقتوں میں نہروں کا جال بچھا گئے اگر ان کالے انگریزوں، ہمارے حکمرانوں کے بس میں ہوا ، تو بہتی نہریں بھی بند ہو جائیں گی۔کیونکہ سیلاب آتے رہیں گے۔ دنیا سیلاب کے مارے لوگوں کے نام پر انہیں بھیک دیتی رہے گی اور ان سیاستدانوں کے غیر ملکی اکائونٹ۔۔۔ کیا کہوں۔