2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

شاہ محمود کی کہانی!!

سجاد ترین
07-11-2024

مخدوم شاہ محمود کے بارے میں مختلف کہانیاں اور افواہیں مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں ان کے بیٹے زین قریشی کے بارے میں بھی مختلف کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے چار منحرف اراکین قومی اسمبلی جن میں زین قریشی،اسلم گھمن،میکاداد،ریاض فتیانہ شامل ہیں کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔چاروں منحرف ارکان اسمبلی سے 7 روز میں وضاحت طلب کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل فردوس شمیم نقوی کی طرف سے شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے۔تحریک انصاف کی جانب سے جاری نوٹس میں کہاہے کہ پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی نے اپنے سینیٹرز اور ایم این ایز کو کسی بھی بل کی حمایت اور ووٹ نہ کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں، ارکان اسمبلی اور سینیٹر کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ محفوظ اور نامزد مقام پر رہیں،معتبر ثبوت اور قابل اعتماد ذرائع سے بیانات ہیں کہ آپ کا مکمل ارادہ تھا کہ آپ ضرورت پڑنے پر پارٹی سے منحرف ہو جائیں گے ،آپ کو یہ شوکاز نوٹس دیا جاتا ہے کہ آپ اس نوٹس کے موصول ہونے کے سات دنوں کے اندر جواب دیں،نوٹس کا جواب دینے میں ناکام رہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کے لیے کچھ نہیں نوٹس کا جواب نہ آنے کی صورت میں آپ کے خلاف مزید نوٹس کے بغیر پارٹی سے نکالنے کی کارروائی کی جائے گی۔ گزشتہ روز چند اہم لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں رہیں اور ان ملاقاتوں میں ہم نے مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے کے حوالے سے گفتگو کی۔ اس محفل میں شاہ محمود کے ساتھ ہونے والے معاملات کی اصل کہانی بتائی گئی ایک انتہائی اہم ذمہ دار شخص نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کو اور ان کے بیٹے زین قریشی کو یہ بتا دیا گیا تھا اگر وہ طے شدہ معاملات کے مطابق کام نہیں کر سکتے تو پھر ان کا ملتان والا دربار ان کے بھائی مرید حسین کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ زین قریشی شاہ محمود قریشی کو دربار سے نکال دیا جائے گا۔ یہ وہ معاملہ تھا جس پر شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی نے ہتھیار ڈال دیے اور تمام معاملات کو طاقتور لوگوں کی خواہش کے مطابق قبول کر لیا اور 26 ویں ترمیم کے موقع پر جو کچھ زین قریشی صاحب کو کہا گیا تھا انہوں نے اس پر عمل کیا اگر عمل نہ کرتے تو ان کا دربار ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اس دربار کی وجہ سے انہوں نے تمام مزاحمتی سیاست ختم کر دی اور اچھے بچوں کی طرح لائن میں کھڑے ہو کر امین کہہ دیا یہ وہ اصل کہانی ہے جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی نے پی ٹی آئی کی حکمت عملی پر 26 ویں ترمیم کے دوران عمل نہیں کیا۔ اسلام آباد میں شاہ محمود قریشی کے بارے میں یہ افواہ ہیں گردش کر رہی ہیں کہ اب وہ اپنی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے سندھ کے ایک شاہ صاحب سے ان کا رابطہ بھی ہو گیا ہے اور کچھ معاملات طے کیے جا رہے ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ چند ہفتوں میں شاہ محمود قریشی صاحب کسی اور سیاسی جماعت کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر زین قریشی کی غیر حاضری کے بارے میں جب بانی پی ٹی آئی کو بتایا گیا تو انہوں نے بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان کے پیر اور گدی نشین سیاست اپنے ذاتی مفادات کے لیے کرتے ہیں۔ عمران خان نے زین قریشی کے بارے میں کافی مایوسی کا اظہار کیا۔ ایک جانب شاہ محمود قریشی اپنی راہیں پانی پی ٹی آئی سے جدا کرنے کہ حکمت عملی بنا رہے ہیں دوسری جانب پی ٹی آئی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں اور یہ گروپ کسی نہ کسی طاقتور حلقے کے رابطے میں ہیں اور جو ان کو طاقتور حلقوں کی طرف سے کہا جاتا ہے یہ اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس وقت عملاً تحریک انصاف مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور ہر دھڑا بانی پی ٹی آئی کی بجائے اپنے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ کوئی بانی پی ٹی آئی کو حقائق نہیں بتا رہا میرا ملتانی مخدوم جیل میں کافی تھک چکا تھا اور اب وہ مزید جیل میں نہیں رہنا چاہتا ۔ دوسری جانب دربار کی گدی نشینی بھی ہاتھ سے نکل رہی تھی ایسی صورتحال میں انہوں نے جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ اپنے مفاد میں کیے ہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے جب پیپلز پارٹی چھوڑی تھی تو اس وقت بھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے فیصلے کیے تھے آج بھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے وہ فیصلے کر رہے ہیں۔ دوسری جانب طاقتور حلقے آہستہ آہستہ بانی پی ٹی آئی کو تنہا کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور ان کی قریبی ساتھیوں کو ان سے الگ کیا جا رہا ہے۔ اگر مخدوم شاہ محمود قریشی باقاعدہ طور پر پی ٹی آئی سے راہیں جدا کر لیں گے تو اس کا پی ٹی ائی کو شاید زیادہ سیاسی نقصان نہ ہو کیونکہ ان کے جانے کے بعد ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی پی ٹی آئی میں اپنی جگہ بنا لیں گے۔ مخدوم جاوید ہاشمی گزشتہ کئی سال سے وہی بیانیہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو بانی پی ٹی آئی کا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مخدوم جاوید ہاشمی نے سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔ لہذا اگر مخدوم شاہ محمود قریشی راہیں جدا کر لیں گے تو پی ٹی آئی کو ان کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی اس کمی کو پورا کر دیں گے جس سندھ کے شاہ سے مخدوم شاہ محمود قریشی رابطے میں ہیں اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ اسی پارٹی کے ملتان کے ہمارے مخدوم یوسف رضا گیلانی شاہ محمود کو پیپلز پارٹی میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے آنے والے وقت میں مخدوم شاہ محمود قریشی کس پارٹی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور کون سی پارٹی ان کا ہاتھ قبول کرتی ہے۔ پاکستان میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس بات کا عملی مظاہرہ آنے والے چند ہفتوں میں آپ کو نظر آ جائے گا ۔ بہت سارے لوگ جو جیل میں ہیں یا جن پر مقدمات ہیں وہ پانی پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کر لیں گے اور ان کی سیاست کو ہدف تنقید بنائیں گے۔ عوام کو بتائیں گے کہ وہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں بانی پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی انتخابات کے بعد جو صورتحال بنے گی وہ بھی پاکستان کی سیاست پر کافی اثر انداز ہوگی ۔ پاکستان میں سیاسی میدان میں بہت سارے مہرے آگے پیچھے ہو جائیں گے۔ بہت ساری تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں آنے والے چند ہفتے اسلام آباد میں بہت اہم ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی پنڈت یہ بتا رہے ہیں کہ نومبر سے مارچ تک پاکستان میں اہم تبدیلیوں کا موسم شروع ہو سکتا ہے اور بہت سارے چہرے جو اس وقت سیاست کی دنیا میں چمک رہے ہیں وہ غروب ہو سکتے ہیں۔ بہت سارے وہ چہرے جو بظاہر نظر آرہا ہے کہ وہ غروب ہو رہے ہیں ان کا سورج چمک سکتا ہے۔ انتظار کرتے ہیں اور آنے والے دو تین ہفتوں میں جو فیصلے ہوں گے ان کے مطابق پھر نئی صورتحال پر بات کریں گے پھر آپ کو بتائیں گے کہ یہاں اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا کیا کہانیاں بن رہی ہیں اور کیا کیا کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔