غزل: بخارا سے بخاری تک
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
اورینٹل کالج میں ہمارا دورانیہ 1986-88ء والا ہے۔ معصومہ بخاری اسی دورانیے میں میری ایم اے اُردو کی کلاس فیلو ہے۔ اس زمانے کوگمان میں لاتا ہوں تو ایک ایسی لڑکی دھیان میں آتی ہے، جسے ہم ہونہار سے بڑھ کر کھونہار، سونہار، رونہار کہیں تو زیادہ مناسب ہے۔ پچاس ساٹھ لڑکیوں میں سب سے گم صم، نہ تم ہم، نہ ہم تم، کچھ کھوئی کھوئی، کچھ سوئی سوئی شاید کچھ روئی روئی بھی۔ نہ شرارت، نہ حرارت، نہ نظارت، نہ کرارت، بس بجھارت ہی بجھارت… نہ سجنے سنورنے کا شوق، نہ نمایاں ہونے کی آرزو۔ نہ پڑھائی کی طرف خاص دھیان، نہ کوئی خفیہ مچان، نہ تتلیوں والی اُڑان، نہ محبت کی اُٹھان، نہ عشق کی اذان۔ کسی سے جان نہ پہچان، پنبہ دہان، کم کم زبان، سنسان ہی سنسان۔ ایم اے اُردو میں دو سال ایسے رہی، جیسے دانتوں میں زبان۔ دانت تو پھر بھی بتیس ہوتے ہیں، زبان کہیں نہ کہیں زَد میں آ ہی جاتی ہے لیکن ہم تو کل دس بارہ لڑکے تھے، ہمارے ریڈار تو کیا، یہ ہماری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ ہم دیہات آثار لڑکے تو رہے ایک طرف، اس سے لڑکیوں کو بھی یہی شکایت تھی۔ قدم قدم، بہانے بہانے، انارکلی، بانو بازار، مال روڈ، لارنس، کنگز، کبانہ، کیپری کی جانب چوکڑیاں بھرتی ہماری کلاس فیلو لڑکیوں کے بیچوں بیچ اس سہمی ہوئی ہرنی کو دیکھ کے حیرت بھی ہوتی۔ نہ کسی سالگرہ کا حصہ، نہ کسی کلاس ٹرپ کے لیے بے چَین، نہ کالج کنٹین پہ چٹر پٹر، نہ کلاس میں نمایاں ہونے کا ہَوکا۔ جب ہمیں علم ہوا کہ یہ معروف شاعر شہرت بخاری اور سوشل ایکٹوسٹ فرخندہ بخاری کی بیٹی ہے تو مزید حیرت ہوئی کہ یہ کیسی لڑکی ہے، نہ شہرت کی طالب، نہ فرخندہ طبع۔ پھر جب اس خاندان کے ساتھ ضیائی ’التفات‘ کا علم ہوا تو سارا معاملہ اظہر عباس کے اس شعر کی صورت سمجھ میں آ گیا کہ: مِری کہانی ، تِری کہانی سے مختلف ہے کہ جیسے آنکھوں کا پانی سے مختلف ہے ادبی دنیا میں مطالعے کے راستے داخل ہونے کے بعد اُردو غزل کے جس منظرنامے سے ہمارا پہلا اَکھ مٹکا ہوا، اُس میں فیض، ناصر کاظمی، احمد مشتاق اور منیر نیازی وغیرہ کے دائیں بائیں، شاعری کی شائیں شائیں تو بہت تھی لیکن توجہ کھینچنے والے نام چند ایک ہی تھے، جن میں ایک نمایاں نام جناب شہرت بخاری کا بھی تھا۔ مذکورہ شعرا میں سے اکثر کے کلام میں خدائے سخن میر تقی میر کی تخائی ہوئی دُھونی برابر سلگتی دکھائی دیتی لیکن حالات و جذبات اور ذاتی تجربات نے سب کو انفرادیت کے جادے پہ گامزن رکھا،بقول شہرت: داغوں کے چراغوں کے سوا خاک نہیں کچھ یہ دل تو مجھے میر کا دیوان لگے ہے سید محمد انور بخاری سے نرگس، شبنم اور شہرت تک، موہنی روڈ سے میانی صاحب تک، لاہور سے لندن تک، حب الوطنی سے جلاوطنی تک، احسان دانش کی شاگردی سے اُردو کی استادی تک، ’طاقِ اَبرو‘ سے ساڑھے چھے سو صفحات کے ’کلیات‘ تک ایک سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو دو دسمبر ۱۹۲۵ء سے گیارہ اکتوبر ۲۰۰۱ء تک کے چھہتر سالوں میں ان کاچھے دہائیوں سے زیادہ عرصہ اُردو غزل کے نام لکھا دکھائی دیتا ہے۔ ذرا گیارہ برس کی عمر میں شبنم تخلص کرنے والے اس شاعر کا شوخ لڑکپن ملاحظہ ہو: کوچۂ یار سے گزرا جو جنازہ میرا جان کے پوچھا ‘ہے یہ لاشہ کس کا؟‘ آج اگر شہرت بخاری کا نام تعارف سے نکل کے معارف کے درجے میں داخل ہو چکا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شاعر کے منھ میں بتیس دانت اور قلم کے جبڑے میں چھتیس حرف ہوتے ہیں اور اسے زندگی کا سارا یُدھ انھی محدود ہتھیاروں سے برپا کرنا ہوتا ہے۔ انھیں علم تھا کہ ذہن کا چرخہ چلتا ہے تو الفاظ کی پُونیاں، کتن والے کی مہارت سے اشعار کے طلسمی دھاگوں کا رُوپ اختیار کرتی چلی جاتی ہیں، جس سے کبھی عاشق کا گریبان اور کبھی فقیروں کی لوئی وجود پاتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ باریکیوں اور تاریکیوں کا تانا بانا بُنیں تو شعر کی قبا وجود میں آتی ہے۔ بیسویں صدی میں اُردو غزل نے موضوعات اور تجربات کے حوالے سے جو انگڑائی لی، جناب شہرت بخاری نے اپنی غزل میں اِن کیفیات کا انجذاب نہایت مہارت سے کیا ہے۔ اُردو زبان نے الفاظ و خیالات کے ساتھ بہت سی اصناف بھی مختلف زبانوں سے مستعار لیں، ان میں ہندی کا بیٹا گیت، رشین سپوت افسانہ اور فارسی کی دخترِ نیک اختر غزل ایسی اصناف ہیں کہ جن کی مقدار اور معیار سے ہم شرمندہ نہیں ہیں۔ شہرت کی جذباتی شہرت کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن ادبی زندگی میںیہ بات قابلِ رشک ہے کہ وہ اول دن سے جس بنتِ ادب (یعنی غزل )کے اسیر ہوئے، یک در گیر و محکم گیر کے مصداق اُس کا ساتھ جواں مردی سے نبھایا۔ سمرقند و بخارا را والے حافظ نے غزل کی صنف کو ایسی رفعتوں سے آشنا کیا کہ لوگ ’دیوانِ حافظ‘ سے فال نکالنے لگے۔ اُردو نے اس صنف کو گود لیا تو ولی، میر، غالب اور پھر ظفر، فراز، شکیب، افتخار، کولسری سے شاہین، تابش، فرحت تک جملہ عشاق نے اس کے بہت لاڈ لڈائے ۔ کبھی اسے کلاسیکیت کا دودھ پلایا، کہیں جدیدیت کی لوریاں سنائیں اور اکثر اسے ندرتِ خیال کے جھولے میں جھلایا۔ جناب شہرت بخاری کا نمونۂ کلام دیکھیے: ہم سفر ہو کوئی اپنے جیسا ‘چاند کے ساتھ چلو گے کب تک مجنوں پہ نہ کر رشک کہ جو اہلِ وفا ہیں مر جاتے ہیں معشوق کو رُسوا نہیں کرتے غزل سرائی کا منصب نہ چھوڑنا شہرت کسی کے سینے میں دل ہے اگر تو دھڑکے گا وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اُڑا نیندیں وہ درد کہ اُٹھا نہ کبھی، کھا گیا دل کو سانبھر ہو کہ دِلّی ہو کہ لاہور کہ لندن نکلے جو مدینے سے تو ہر شہر ہے کُوفہ تمھیںمعلوم ہے لاہور والو!‘کہاں گم ہو گیا شہرت بخاری ؟ بڑے شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اُس کا کلام کبھی آؤٹ ڈیٹڈ نہیں ہوتا۔ اس کے نادر و نایاب اَفکار ہر زمانے میں مفہوم و معانی کی نئی قبا اوڑھ کے پردۂ سکرین پہ جگمگانے لگتے ہیں۔ آپ ہمارے ممدوح شاعر کے ان اشعار کو حبس و جبر کی موجودہ فضا میں محسوس کیجیے: جینا ہے تو بستی سے کرو ترکِ سکونت‘جنگل میں گزر ہوتا ہو ممکن ہے ہوا کا عادی ہوئے تیرگی کے اتنے‘سُورج کی خبر سے ڈر گئے ہیں پُوچھتی ہے مِری اُڑتی ہوئی راکھ‘کیا ہوئے آگ بجھانے والے ؟ انھیں معلوم ہے آگے ہے دلدل‘مگر یہ لوگ بڑھتے جا رہے ہیں ! آخری بات کہ جناب شہرت بخاری کی سخن وری کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ کسی طرح کے حالات سے مایوس نہیں ہوتے کیونکہ انھیں یقین ہے کہ: یہ ریت کی دیوار ہے ٹھہرے گی کہاں تک لے جائیں گے ہر چیز کو طوفان کے ریلے