2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

ماں بولی کا مسئلہ!

اقتدارجاوید
12-11-2024

پنجابی ذہنی اور عملی طور پر ماں بولی سے کوسوں دور ہے۔ اصل میں ہم زندگی بھر کسی اور سے وہ محبت کبھی محسوس نہیں کر پائے جو ہمیں اپنی ماں بولی سے ہے۔ ماں بولی سے عشق کی اور بہت ساری وجوہات کے علاوہ یہ بھی ہے کہ عین ممکن ہے کہ یہی دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہو اور قدیم انسان کا ماضی اس میں قید ہو۔ دنیا میں تحریر شدہ زبانوں کی عمر یہی کچھ پانچ ہزار سال کے لگ بھگ ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ پانچ ہزار سال سے قبل کے انسان سارا تجربہ انہی موجود اور فنا زبانوں کے ذخیرہ الفاظ میں موجود ہے۔انسان کی تحریر کے نمونے جن میں دس تہذیبوں کا ذکر ہوتا ہے ان میں ایک تہذیب وہ بھی ہے جہاں ہماری ماں بولی بولی جاتی ہے۔دنیا کے دس رسم الخطوط کا آغاز مشرق وسطی یورپ افریقہ اور پنجاب میں ہوا۔چند اور رسم الخطوط کے علاوہ خود ہماری جنم بھومی کی زبان یا تحریر کو آج تک نہیں پڑھا جا سکا۔یعنی پنجاب کے انسان کے تحریر کردہ مواد آج بھی ایک سربستہ راز ہے اور ہڑپہ کی تختیاں آج بھی ایک عقدہ ِ لاینحل ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہاں بولی جانے والی زبان سے ہی سنسکرت نے جنم لیا ہو اور یہ کہنا کہ سنسکرت سے لوکل زبانوں نے جنم لیا ہے قطعی غلط ہو۔عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس دھرتی کی جو دس زبانیں براہ راست سنسکرت سے ارتقا پذیر ہوئیں ان میں ہماری ماں بولی بھی شامل ہے۔ لفظ پنجابی بطور زبان کا تذکرہ بالکل تازہ ہے اور اس بطور زبان پنجابی کہنا گرو اگند نے شروع کیا۔ اس قدر گراں قدر زبان کے مالک اور وارث آج کن حالات سے دوچار ہیں ایک کمپلیکس سوال ہے اور اس کا جواب چند لائنوں میں نہیں دیا جا سکتا اور دینا بھی نہیں چاہیے کہ وہ جواب پوری پنجابی تاریخ روایت رسوم عادات اور رسم الخط کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔تا ہم پنجابولوجی کے صحیح ادراک نہ ہونے کے باعث پنجاب کا دانشور احساس کمتری کا شکار ہے اور محض لیپا پوتی کا قائل اور پنجابی زبان میں تقریر کرنے کے اصرار اور اونچی آواز بات کرنے کو شاید پنجابولوجی سمجھتا ہے۔ جاننا چاہییے کہ پنجابولوجی کا حدود اربعہ کیا ہے اور ہم جیسے عام پنجابیوں اور اس کے دانشوروں کو کیا جاننا ضروری ہے۔ پنجابی زبان اور اس کی قدامت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ جاننا بھی از حد اہم ہے کہ لسانیات کا فلسفہ زبان، اس کی نوعیت، اور حقیقت، ذہن اور معاشرے سے اس کے تعلق کے بارے میں بنیادی سوالات کی کھوج کرتا ہے۔اس سلسلے میں اس موضوع کے بنیادی نکات اور علاقے نشان زد کرنا بھی ضروری ہیں۔وہ یہ کہ ہماری زبان کا دنیا علم اور سچائی سے کیا تعلق ہے۔دوسری زبانوں کی طرح ہماری زبان کس طرح اذہان اور سوچ کو متاثر کرتی ہے۔اور زبان کس طرح شناخت ثقافت کلچر ادب اور آپس کے سماجی تعلقات کی تشکیل کرتی ہے۔ لیکن اس جانکاری سے پہلے پنجابی زبان کی موجودہ صورت حال کو بھی دیکھنا چاہیے اسی سے ہمیں پتہ چلے گا اور اہل پنجاب ان کی ثقافت اور ادب کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ایک دو سال قبل پنجابی زبان کے نام پر قائم ایک ادارے نے سرکاری پرچے میں کل پنجاب مشاعرے کی طرز پر کل پنجاب نظم کے نظم گو حضرات کی اکٹھی نظمیں شائع کی تھیں۔ہم نے اس وقت بھی اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ اس نظم میں روح عصر مر رہی ہے۔لوگوں نے سمجھا کہ ہم شاید کوئی پرانا بدلہ اتار رہے ہیں مگر ہمارا مقصد یہ تھا اور ہے کہ پنجاب سے متعلق لوگوں کا پنجابی زبان ایشو ہی نہیں رہا تو اس میں روح عصر کے در آنے کے قطعاً امکانات نہیں ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن نہ ان کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ ہم اپنے موقف سے پیچھے ہٹے۔ یہ صورت حال ہمارے ملک کے دوسرے صوبوں میں نہیں ہے۔مثلاً سندھ کو لیجیے وہاں ساٹھ کے عشرے سے سندھیالوجی کا شعبہ قائم ہے۔ یہ سندھی زبان سے متعلق ہوتے ہوئے بھی ایک خیال تھا کہ اس کا مقصد سندھ کی روح کو دریافت کرنا تھا۔سندھیالوجی محض سندھی زبان میں ایم اے کر لینے سے الگ حقیقت ہے۔وہاں سندھی فکر باقاعدہ موجود ہے بلوچستان میں بلوچ فکر موجود ہے اور اس کی نمائندگی کرنے والے ادبا موجود ہیں۔ہمارا پنجابیوں کا قضیہ بہت تکلیف دہ ہے ہم اردو میں لکھتے ہیں اور شاید اسے ہی اب ماں بولی سمجھتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب اپنی دانش کا اظہار نہیں کر پا رہا اور پنجابی زبان کے موجودہ منظر نامے میں مصنوعی پن ختم نہیں ہو رہا۔کوئی بڑا دانشور موجود نہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے متصف ہو۔اس صورت حال کا موازنہ باقی صوبوں سے کیا جائے تو بھی پنجابیوں کو اپنی بے وقعتی کا احساس کیوں نہیں ہوتا۔محض ایک آدھ ادبی پرچہ اور ایک آدھ اخبار اکیلے یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ تمام مذاہب کی کتب آسمانی ہیں اور آسمانی سمجھی جاتی ہیں مگر ہمارے لیے یہ حیرت اور خوشی کا باعث ہے کہ اس دھرتی کے دونوں مذاہب کی کتب آسمانی نہیں جنم لینے والوں کی لکھی ہوئی ہیں۔چار ویدوں اور گرنتھ صاحب کی مقدس کتابوں پنجاب سے جنم لینے والوں اور یہیں رچ بس جانے والے صوفیا اور شعرا کا کلام بھی شامل ہے۔ویدوں میں شامل کلام کے خالق وسشتھا، وسوامترا اور گرستامدا یہیں کے رہنے والے اور پنجاب ہی سے متعلق تھے۔ پنجابولوجی پنجاب سے کہیں زیادہ اہم ٹاپک ہے۔ہم اس پر مزید لکھیں گے اور اگلا کالم پنجابولوجی کے خدوخال پر ہو گا کہ پنجابولوجی کی اصطلاح سندھیالوجی کی طرز کی ایک جامع اصطلاح ہے اور اسے پنجابیت کے فروغ دینے کے لیے مستعمل ہونا چاہیے کہ پنجابیت کا فروغ پنجابولوجی کا ایک جز ہے۔