ملامت کا رخ اہل غزہ کی طرف کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
اہل غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کیا کم تھی کہ احمد جاوید صاحب نے ان پر طنز و تشنیع اور ملامت کے تیر بھی برسانے شروع کردیے ! یہ کام ان سے قبل اہل المورد کر رہے تھے تو اس پر حیرت نہیں تھی کہ شکست خوردہ دانش سے اور کیا توقع کی جاسکتی تھی، لیکن اہلِ تصوف تو اہلِ دل ہوتے ہیں، پھر انھیں کیا ہوگیا ہے؟ بات صرف سطحی تجزیے، شاعرانہ انفعال،لفاظی اور مبالغے کی حد تک ہوتی، تو نظر انداز کی جاسکتی تھی کہ معاملات سمجھے بغیر تجزیے کرنا اور کتاب پڑھے بغیر تبصرے کرنا بعض اہلِ قلم کی عادت بن چکی ہے اور بعض بزرگ صرف عمر رسیدہ ہونے کی بنا پر اسے اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن جب بات اہلِ عزیمت پر طنز و تشنیع اور ملامت تک پہنچ گئی، تو گرفت ضروری ہوگئی ہے۔ اہلِ غزہ کو اس بات پر ملامت کہ غاصب ریاست کے خلاف مزاحمت کرکے وہ اپنے ہزاروں لوگوں کے قتل کا باعث بنے، حقائق کے خلاف ، اور قانون سے بے خبری کی دلیل تو ہے ہی، لیکن شاید یہ مظلوم کو ملامت کرنے (’ blaming victim ‘) کی بد ترین مثال بھی ہے۔ کیا ملامت کرنے والے نہیں جانتے کہ یہ ظلم 7 اکتوبر 2023ء کو شروع نہیں ہوا، بلکہ ایک صدی سے زائد عرصہ قبل 1917ء میں اعلانِ بالفور سے شروع ہوا جب وقت کے دیوتا نے اس سرزمین پر ایک ناجائز ریاست کی بنیاد رکھنے کا باقاعدہ اعلان کیا؟کیا انھیں اتنا بھی اندازہ نہیں کہ 100 سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں جو موڑ 7 اکتوبر 2023ء کو آیا، وہ اس دن نہ آتا، تو چند دن بعد اس نے آنا ہی تھا، اور اہلِ غزہ نے تو اصل میں ’پیش بندی کا اقدام‘ کیا ہے، جو وہ نہ کرتے، تب بھی غاصبوں نے ان کے ساتھ یہی کرنا تھا، لیکن اس پیش بندی کے اقدام کی وجہ سے غاصبوں کو جو نقصان پہنچا، وہ نہ پہنچ پاتا؟ کیا انھیں یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ اہلِ غزہ کی اس عظیم الشان اور بے مثل قربانی کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کی جاگیروں کی جانب سے غاصب اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو جائز تسلیم کرنے کا سلسلہ رک گیا ہے؟ اب تو ٹرمپ نے غزہ پر قبضے کا باقاعدہ اعلان بھی کرلیا ہے۔ تو شکست خوردہ دانشور اور ملامتی صوفی اب کیا کہیں گے؟ کیا غزہ خالی کردینا چاہیے؟ اور اس کے بعد مسجدِ اقصیٰ سے بھی دستبردار ہوجانا چاہیے؟ پھر اگر خاکم بدہن بات مسجد حرام اور مسجد نبوی تک پہنچ گئی، تو کیا کریں گے؟ جنگ میں ’بیانیہ‘ سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اعلانِ بالفور سے اسرائیل کے قیام تک مغربی دنیا اسے ’عرب-یہودی تنازعہ‘ کہتی تھی؛ 1948ئ سے 1967ء تک اسے ’عرب-اسرائیل تنازعہ‘ اور 1967ء کے بعد اسے ’فلسطینیوں اور اسرائیل کا تنازعہ‘کہا جانے لگا؛ اور یاسر عرفات کو ’فلسطینی اتھارٹی‘ سونپ دینے کے بعد اسے ’حماس-اسرائیل تنازعہ‘کا نام دیا گیا؛ اب مغربی میڈیا اس تنازعے کو صرف اہلِ غزہ تک محدود قرار دے رہے ہیں، اور ہمارے شکست خوردہ دانشور اور ملامتی صوفی سوچے سمجھے بغیر ان کے سْر میں سْر ملا رہے ہیں۔چونکہ غزہ اور مسجدِ اقصیٰ سمیت پورے القدس پر تمام مسلمانوں کا شرعی اور قانونی حق ہے اور ان کا دفاع تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے، اس لیے درحقیقت یہ تمام مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے اور اس کو اسی طرح دیکھنا لازم ہے۔ سورۃ الشوریٰ، آیت 39 میں مسلمانوں کی صفت یہ ذکر کی گئی کہ جب ان میں کسی پر زیادتی ہو، تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ اس سے پچھلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے تمام امور باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔ یہ آیات مسلمانوں کے ’اجتماعی حقِ دفاع‘ کی بنیاد ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 51بھی ریاستوں کو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی دفاع کا حق دیتی ہے۔ نیٹو کی تنظیم تو بنی ہی اسی اصول پر ہے کہ اس تنظیم کے کسی ایک رکن پر حملہ تنظیم کے تمام ارکان پر حملہ تصور ہوگا۔1969ء میں’اسلامی کانفرنس کی تنظیم‘ جسے اب ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کہا جاتا ہے، وجود میں ہی تب آئی تھی جب مسجدِ اقصیٰ کو جلانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کے بعد سے آج تک اس تنظیم کا اولین مقصدِ وجود مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت ہے۔ ہمارے نزدیک تو اسرائیل کا قیام ہی غیر قانونی طریقے سے عمل میں لایا گیا ہے لیکن معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی قبضہ جنگ کا تسلسل ہے اور اقوامِ متحدہ کا سرکاری موقف یہ ہے کہ 1967ء میں اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، وہ اس کا حصہ نہیں ہیں، وہاں اس کی حیثیت قابض طاقت کی ہے جس نے جلد یا بدیر مقبوضہ علاقوں سے نکلنا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اس کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق ہے۔ غزہ اور مسجدِ اقصیٰ انھی مقبوضہ علاقوں میں ہیں۔ نیز مظلوموں کی مدد کیلیے جنگ مسلمانوں کا صرف حق ہی نہیں، بلکہ شرعی فریضہ ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت 60 مسلمانوں کو اپنی استطاعت کی حد تک دشمن کے خلاف قوت تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اوراس سورۃ کی آیت 72 اور سورۃ النسآء کی آیت75 میں مظلوم بچوں اور مرد و خواتین کو ظلم سے بچانے کیلیے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر فقہائے امت نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں پر حملہ ہو اور وہ دفاع سے قاصر یا غافل ہوں، تو دوسرے مسلمان اسے پرایا جھگڑا سمجھ کر الگ تھلگ نہیں بیٹھیں گے، نہ ہی خاموش تماشائی بن کر سب کچھ برباد ہوتا دیکھیں گے، بلکہ ان کے قریب کے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا، پھر ان کے بعد کے مسلمانوں پر، یہاں تک کہ شرقاً و غرباً یہ فریضہ پوری دنیا کے مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا، اور ایسے میں جو مسلمان اس فریضے کی ادائیگی سے گریز یا کوتاہی کریں، تو وہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی ’انسانیت کے تحفظ کیلیے حملہ‘جائز ہے اور نیٹو نے 1998ء میں کوسووو میں بمباری کو اسی بنیاد پر جواز دیا تھا۔ اہلِ غزہ تو القدس کے عشق میں اپنا سب کچھ قربان کررہے ہیں اور اس شعر کا مصداق ہیں: اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا! ان کو برا بھلا کہنے کے بجائے تنقید اور ملامت کا رخ 57 مسلمان ریاستوں کی حکومتوں کی طرف کرنا چاہیے۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ باقی دنیا کی جانب سے مدد نہیں آرہی، لیکن یہ سوال پوچھنا کیوں مشکل ہے کہ باقی دنیا کی جانب سے مدد کیوں نہیں آرہی؟ کیا اس لیے کہ اربابِ اقتدار پر تنقید کے نتیجے میں کچھ تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اور مورچے پر موجود سب کچھ لٹانے والے جانبازوں کو برا بھلا کہنے پر اپنی جیب سے کچھ نہیں جاتا؟ یہ بات شکست خوردہ دانشوروں کی حد تک تو قابلِ فہم ہے، لیکن ہم تو سمجھتے تھے کہ ملامتی صوفی دوسروں پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کیا کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہمیں ملامتی صوفی بھی ٹھیک نہیں ملے!