مہنگائی میں کمی کا دعویٰ عوام سے مذاق!!
ذوالفقار چوہدری
پاکستان کے قومی ادارہ شماریات کی جانب سے حال ہی میں مہنگائی کے حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی تقریباً تین سال بعد 'سنگل ڈیجٹ‘ پر آ گئی ہے اور مہنگائی کی شرح 9.64 فیصد ریکارڈ کی گئی۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ افراط زر کا نیچے آنا محض اتفاق نہیں بلکہ یہ ان کی حکومت کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ موجودہ حکومت کے کئی وزرا بھی تکرار کے ساتھ مہنگائی کا اعلان کر کے ''فتح کے شادیانے‘‘ بجا رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں، جب حکومتی حلقوں کی طرف سے افراط زر میں کمی کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، عوام کا ایک ہی سوال ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات ان تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ جس کا حکمرانوں کے پاس سوال چنا جواب گندم کے مصداق ہے۔ یہ سچ ہے کہ سرکاری اعداوشمار درست ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت ان اعدادوشمار کو اپنی کارکردگی دکھانے اور عوام میں اپنی ساکھ جھوٹ کے زور پر بحال کرنے کے لئے توڑ مڑوڑ کر پیش کر رہی ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی کی شرح نو فیصد تک آ گئی ہے مگر عوام کو یہ نہیں بتایا جا رہا ہے یہ مہنگائی بڑھنے کی شرح ہے مثال کے طور مزکورہ مہینے ماہ مہنگائی کی شرح 9.64 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ تین سال میں مہنگائی کی شرح کی سپیڈ ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔ سادہ لفظوں میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جو چیر ایک ماہ پہلے 100روپے میں مل رہی تھی اس ماہ 109.64 روپے میں فروخت ہوئی یعنی اس کی قیمت میں نو روپے چونسٹھ پیسے اضافہ ہوا جو گزشتہ تیں سال میں کسی بھی مہینے میں ہونے والے اضافے سے کم ترین ہے۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں مہنگائی کم ہونے کا سوال ہی کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح کا براہ راست تعلق افراط زر سے ہو تا ہے اور پاکستان میں افراط زر کی شرح بنگلہ دیش اور بھارت سمیت خطے کے کئی ممالک سے اب بھی کہیں زیادہ ہے۔ وزیراعظم ایک عام آدمی سے زیادہ بہتر طورپر جانتے ہیں کہ پاکستان اپنی75سالہ تاریخ کے شدید ترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے، آسمان سے چھوتی مہنگائی عام آدمی کے لیے بے پناہ مشکلات کا باعث ہے جبکہ یہ صورت حال معاشرے کے تمام شعبوں سے فوری توجہ اور ٹھوس کوششوں کی متقاضی ہے۔ حقیقی معاشی استحکام صرف بیرونی امداد سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے سیاسی اور ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے ایک متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اقتصادی چیلنجز سے مل کر نبرد آزما ہونے کیلئے سویلین اور عسکری قیادتوں کی جانب سے حالیہ عزم کا اعادہ ایک مثبت پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے چونکہ پاکستان معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے، اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کریں۔قوم کی اجتماعی کاوشیں جن کی حمایت ایک متحد قیادت ہی بہتر طور پر کرسکتی ہے۔ ٹھوس اقدام اور عزم کے ساتھ پاکستان اپنے موجودہ معاشی چیلنجوں سے مضبوطی سے نکل سکتا ہے۔گزشتہ 7 دہائیوں سے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے بڑھ رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض سود در سود کے باعث بھی ادا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوجاتا ہے۔ پاکستان کو قرض سے نجات کی بجائے اب سود کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے، اس لیے ملک کو معاشی چیلنجز سے نکالنے کیلئے سیاسی قیادت کا سر جوڑ کر معاشی میثاق کرنا ازحد ضروری ہوچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمراں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیار کیوں نہیں۔ بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی پہلی ترجیع اپوزیشن کو کریش کرنا ہے معاشی استحکام نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت اپوزیشن قیادت کو جیلوں مین ٹھونسنے کے لئے جتنا زور لگا رہی ہے اور سرکاری اداروں کو اپنے کام چھوڑ کر اپوزیشن کے پیچھے لگا رکھا ہے یہی حکومتی طاقت اپوزیشن کو قومی مفاد میں مل کر بیٹھنے پر صرفکی جارہی ہوتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام اس حوالے سے حکومتی اقدامات کو باریکی سے مشاہدہ کر رہے ہیں یہی وجہ سے کہ عوام نے ادارہ شماریات کی جانب سے 9 ماہ میں مہنگائی کی شرح 33 فیصد سے کم ہو کر 9 فیصد کے دعوے کو جھٹلادیا۔ عام شہری کا سوال ہے کہ چیزوں کی قیمتیں تو کم ہوئی ہی نہیں، سب کی سب مہنگی ہیں ، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ہر طبقے خصوصاً متوسط اور غریب طبقے کو شدید متاثر کیا ہے جس کی وجہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں عدم استحکام ہے اور اسی وجہ سے مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ 260 روپے کلو میں ملنے والی دال ماش اب 400 روپے کلو میں فروخت کی جا رہی ہے، 290 کی دال مونگ 380 روپے، 450 روپے کلو والا گھی 480 روپے، 280 روپے کلو والے چاول 340 روپے کلو، 340 روپے والی شیمپو کی بوتل 380 روپے اور75 روپے میں ملنے والا دودھ کا ڈبہ 95 روپے کا ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ مرغی کا گوشت 700 روپے اور گائے کا گوشت 1200 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت کے اعداد و شمار کا عام آدمی کے بجٹ سے کوئی تعلق نہیں۔اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ اپنی جگہ لیکن جب ادویات ، درسی کتب یا کپڑے جوتے، ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو ایسے میں حکومتی اکابرین کے مہنگائی میں کمی کے دعوے حکومت کی نیک نامی کے بجائے عوام سے کھنائونا مذاق اور بدنامی کا باعث نہیں بنیں گے تو اور کیا ہو گا؟۔ ٭٭٭٭