مینوں کی لوڑ اے؟
عا رف نظا می
جوں جوں میاں نواز شریف کے خلاف نیب کیسز کے فیصلے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ان کے لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔انہوں نے خود کہا ہے ،’’ہو سکتا ہے انہیں سزا ہو جائے‘‘۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو تلقین کی ہے کہ اگرچہ وہ اس وقت مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے حوصلے بلند رکھیں۔میاں صاحب کو خدشہ ہے کہ انہیں مزید مقدمات میں پھنسایا جائے گا تاہم انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے گھبرانے والے نہیں ۔میاں صاحب سیاسی طور پر اورلندن میں صاحب فراش اپنی اہلیہ کے حوالے سے ذاتی طور پر بھی واقعی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے اور ان کیلئے الیکشن سے عین قبل سیاسی طور پر فعال رہنا خاصا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کیلئے اگلے انتخابات میں ترپ کا پتہ میاں نواز شریف ہی ہیںجن کے نام پر ہی ووٹ پڑتے ہیں۔میاں نواز شریف چودھری نثار علی خان سمیت اپنی پارٹی میں بعض ناقدین کے اپنی نااہلی سے لیکر اب تک اس اعتراض کو رد کرتے جا رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری کے معاملے میں ہتھ ہولا رکھیں اور مسلسل تندوتیز تنقید کے خنجر گھونپنے سے باز رہیں۔ اس حوالے سے برادر خورد میاں شہباز شریف بھی مبینہ طور پر ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا چکے ہیںلیکن میاں صاحب کہاں ماننے والے ہیں؟میاں صاحب کی یہ ہارڈ لائن ان کے حامیوں اور ناقدین دونوں کیلئے حیران کن ہے۔ ویسے تو یہ کہنا آسان ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا،غالباً سیاسی طور پر ان کیلئے سب سے بڑا دفاع جارحانہ بیٹنگ ہی کرنا ہے لیکن جن معاملہ فہموں کا یہ اعتراض تھا کہ میاں صاحب جو پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری اور عرب ممالک کے زیر سایہ ڈیل کر کے دس سال کی جلا وطنی کیلئے سعودی عرب چلے گئے تھے وہ اب بھی یہ پریشر برداشت نہیں کر پائیں گے۔نا اہلی کے بعد ان کے پاس دو ہی راستے تھے۔ایک موٹر وے کا پر امن اور آسان راستہ جس میں وہ براستہ بھیرہ مرغ کھاتے ہوئے نیم ریٹائرمنٹ موڈ میں جاتی امرا بیٹھ جاتے۔انہیں یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ چھوٹے بھائی کو آگے کر دیں اور خود لندن پدھار جائیں۔لیکن میاں صاحب نے جی ٹی روڈ کا مزاحمت والا ناہموار راستہ منتخب کیااور چودھری نثار جیسے حواری سر پیٹتے رہ گئے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران میاں صاحب کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔وہ اگرچہ مشیروں کے کہنے پر اپنی لائن کبھی ہلکی اور پھر تیز کرتے رہے اور مختصر مدت کیلئے وہ تقریروں میں براہ راست برسنے سے اجتناب کرتے رہے لیکن دوسری طرف سے کوئی گھاس نہ پڑی تو انہوں نے پھر جارحانہ رویہ اختیار کر لیا۔نواز شریف نے ایک اور بڑی گہری چال چلی جوسیاسی طور پر اپنی صاحبزادی مریم نواز کو میدان میں اتارنا ہے۔چودھری نثار کا برملا کہنا ہے کہ وہ ان کے نیچے کام کرنے کو تیار نہیں لیکن وہ کونسی فوری وزیر اعظم بننے جا رہی تھیں۔وہ ہر پیشی اور ہر جلسے میں میاں نواز شریف کے ہمراہ ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی کو ذاتی اور سیاسی طور پر ان کا حلیف ہونا بھی چاہئے۔ محترمہ نے اب تک سیاسی طور پر ایک گہرا تاثر چھوڑا ہے۔میاں صاحب کے ملک بھر میں با رونق جلسے اور تمام ضمنی انتخابات جیتنا بھی سکرپٹ کا حصہ نہیں تھا۔علاوہ ازیں خیال یہ تھا کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی پارٹی تتر بتر ہو جائے گی لیکن ہنوز ایسا نہیں ہوا۔اب یہ امید لگائی جا رہی ہے کہ جیسے ہی انتخابات کیلئے نگران حکومت آئے گی پارٹی کا ڈبہ گول ہو جائے گالیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بڑی ترکیب کے ساتھ رمضان سے قبل پنجاب میں میاں نواز شریف کے جلسوں کیلئے ان علاقوں کو منتخب کیا ہے جہاں کے امیدواروں پر پی ٹی آئی شب خون مار سکتی ہے۔ میاں نواز شریف جس انداز سے سیاست کر رہے ہیںغالباً ان کی نظر 2023ء کے انتخابات پر ہے جس میں ممکنہ طور پر مریم نواز کو بطور وزیراعظم نامزد کرنا ہے۔اگلے عام انتخابات میں جیتنے کی صورت میں قرعہ فال میاں شہباز شریف کے نام نکل سکتا ہے لیکن جیسی بساط بچھ گئی ہے شاید مسلم لیگ (ن) بھی دیگر جماعتوں کی طرح واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے اور عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سینیٹ کے انتخابات کی طرح مل کر انہیں آؤٹ کر دیں۔البتہ اگر مسلم لیگ (ن) پنجاب میں جہاں شہباز شریف نے بہت ترقیاتی کام کئے ہیں اپنی انتخابی حیثیت برقرار رکھنے میں کسی حد تک کامیاب ٹھہرتی ہے تو میاں شہباز شریف اسی تنخواہ پر پھر وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ آصف زرداری نے میاں نواز شریف پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ان کا فرمانا ہے کہ ہم میاں نواز شریف کو بھولا سمجھتے تھے لیکن وہ اس سے کہیں زیادہ موقع پرست ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ مختلف پیغام رسانوں کے ذریعے سویلین بالادستی کیلئے نواز شریف کی ہاںمیںہاں ملاتے رہے لیکن انہوںنے زرداری کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھایا،ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑا کر خود ان سے معاملات سیدھے کر لئے۔زرداری صاحب نے ان سے منسوب متذکرہ بیان کی تردید کی ہے لیکن ابھی تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ انہوں نے یہ باتیں کی ہی نہیں تو کہاں سے اور کس نے لیک کیں،غالباً کسی ’’ذمہ دار‘‘ نے آف دی ریکارڈ گفتگو باہر کردی۔ ویسے تو زرداری صاحب کونیکی کر دریا میں ڈال کہہ کر یہ سب کچھ بھلا دینا چاہئے۔ سویلین بالا دستی کا اصول پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنائے رکھا ہے۔میاں صاحب کو بھی اس کے خواب آتے رہتے ہیںلیکن اس حوالے سے عملی طور پر ان کا ریکارڈ اتنا اچھا نہیں ہے۔انہیں اپنی اس روش کو ترک کرنے کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں اور سیاسی ساتھیوں کو استعمال کر کے پھینک دیا جائے۔مثال کے طور پر جب آمر جنرل ضیا ء الحق نے اپنے ہی جمہوریت کے نفاذ کے تجربے کو کامیاب ہوتے دیکھا تو انہوں نے مئی 1988ء میں چین کے دورے سے واپس آتے ہی وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو فارغ کر دیا۔ میاں نواز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب محمد خان جونیجو کے ہمراہ تھے،انہوں نے اس وقت یہ کہہ کر کہ ’’مینوں کی لوڑ اے‘‘جونیجو کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے جنرل ضیا ء الحق کی گود میں بیٹھے رہناپسند کیا اور بعدازاں آمر مطلق کی پراسرار طیارے حادثے میں ہلاکت سے چند روز پہلے ہی اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں مسلم لیگ کے کنونشن میں مسلم لیگ کے صدر محمد خان جونیجو کو ہٹا کر پارٹی پر قبضہ کر لیا،یہیں سے میاں صاحب کی قومی سیاست کا آغاز ہوا۔ اس وقت کی آئی ایس آئی کی آشیرباد سے بننے والے اسلامی جمہوری اتحادکیلئے بھی میاں صاحب خاصے گرم جوش تھے۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل جب بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو اس کے بعد اے پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا کہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا اس اتحاد میں میاں نواز شریف بھی شامل تھے لیکن انہوں نے بعد میں زرداری کے مشورے پر بائیکاٹ ختم کر دیااور اے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں منہ دیکھتی رہ گئیں اور عمران خان بھی نہاتے دھوتے رہ گئے۔دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔2014ء میں آصف زرداری نے یقینامیاں نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا اور اس وقت عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے نتیجے میں امپائر کی انگلی اٹھنے کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ سیاست اور اخلاقیات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہ گیا لیکن یہ بات محض جزوی طور پر درست ہے اگر سیاستدان اپنے حلیفوںکو ساتھ لیکر نہ چلیں تو وہ یک و تنہا رہ جاتے ہیں۔میاں صاحب کو تمام تر پذیرائی حاصل ہونے کے باوجود نہ صرف ذاتی اور سیاسی رویوں بلکہ اپنے گزشتہ چار برس کے طرز حکمرانی کو سب اچھا کہنے کے بجائے خود احتسابی کی نظر سے بھی دیکھنا چاہئے۔آصف زرداری نے 2015 میں میرے ذریعے لندن سے پیغام بھیجا کہ میاں صاحب سے کہیں کہ مغل اعظم نہیں وزیر اعظم بنیں۔انہیں آئندہ کی حکمت عملی متعین کرنے کیلئے آصف زرداری کے اس پیغام کی جزئیات پر غور کرنا چاہئے۔