پاکستان بھارت کشیدگی!
نعیم قاسم
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ ہندوستان کے متعصب اور انتہا پسند حکمرانوں کو اس کا قائم دائم رہنا ایک آنکھ نہیں بھا رہا مگر ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں کہ جب دونوں ممالک کے حکمران اپنے عوام کی نظروں میں غیر مقبول ہونے لگتے ہیں تو داخلی مسائل سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے "دشمنی کارڈ" کھیلنا شروع کر دیتے ہیںاور خطے کے اربوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیتے ہیں ۔چھ عقل کے اندھے ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ایک دوسرے کے شہروں کو نشانہ بنانے کا خطرناک اور ہیجان انگیز بیانیہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے عوام ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے شاہد واقف نہیں ہیں جو ایسی انتہا پسندی کی باتیں شروع کر دیتے ہیں دونوں ملکوں کی خدا نہ کرے کہ ایٹمی جنگ ہو وگرنہ نہ کوئی فاتح اور نہ ہی کوئی مفتوح ہو گا۔ دونوں ممالک کے بے گناہ کڑووں انسان مارے جائیں گے اور جو بچ جائیں گے ان کی حالت مردوں سے بھی بدتر ہو گی۔ ہم پاکستانیوں کو ہندوستان کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے سے پہلے اس بات کا بھی ادراک کر لینا چاہیے کہ ہم ایسے بیانات سے وہاں کے 20 کڑور مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کر دیتے ہیں نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 28 سیاحوں کی ہلاکت پر سکیورٹی کی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اس سانحہ کے پانچ منٹ بعد ہی پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا تے ہوئے سخت اقدامات کا اعلان کر دیا ۔ سب سے بڑھ کر سندھ طاس آبی معاہدے کو بھی یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ 1960 میں عالمی بنک کی ثالثی میں طے پانے والا یہ معاہدہ دونوں فریقین کی رضامندی کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایک بات جو خوش آئند ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام، سیاسی عناصر اور مسلح افواج آزمائش کی اس گھڑی میں متحد دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت جارحیت کرے گا تو پوری قوم فوج کی پشت بان بن کر منہ توڑ جواب دے گی۔ بھارت پاکستان کو مسلسل کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے اور آج بھی "اکھنڈ بھارت " کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ہندو مہاسبھا، راشٹر یہ سیوک سنگھ اور بی جے پی سمیت کئی انتہا پسند تنظیموں نے نا صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے بلک ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف عمل ہیں۔ ہندوستان کشمیر، حیدر آباد، جونا گڑھ، دکن اور کئی دیگر ریاستوں پر ناجائز قبضے کے باوجود پاکستان کی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ موجود وقت میں دونوں ممالک کے درمیان آج بھی مندرجہ ذیل تنازعات حل طلب ہیں 1کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت 2 سیاچین، سرکریک، وولر بیراج، تل مل ڈیم، سلاسل ڈیم، بگلیارڈیم اور کشن گنگا ڈیم کی متنازعہ تعمیرات 3 پانی کی تقسیم کا مسئلہ اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں 4 دریائے سندھ کے پانی کا رخ موڑنے کے لیے 48 کلومیٹر لمبی سرنگ بنانے کا مسئلہ 5 بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کی سرپرستی 6 سمندری حدود کی خلاف ورزیاں اور ماہی گیروں کی گرفتاریاںمذکورہ بالا مسائل میں مسئلہ کشمیر کے بعد پاکستان کو دوسرا بڑا درپیش مسئلہ پاکستان کے ابی وسائل پر بھارت کے قبضہ کرنے کی خواہش ہے تاکہ پاکستان کی زرخیز زمین بنجر اور بے آباد ہو جائے ۔انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت جو دریا پاکستان کے حصے میں آئے اور جن کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، انکا منبع کشمیر میں ہے جبکہ انڈیا کے حصے میں آئے مشرقی دریا راوی، ستلج اور بیاس آئے ہیں عالمی بنک کے صدر یوجین بلیک نے دونوں ملکوں کو پانی کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے مالی اور فنی امداد کی پیش کش کی دونوں ممالک نے پیش کش منظور کرلی اور 1960 میں صدر ایوب اور پنڈت نہرو نے سندھ طاس س منصوبے پر دستخط کر کے اس کی توثیق کر دی پاکستان کو پانی کی سپلائی کے لیے منگلا اور تربیلا ڈیم اور متعدد نہروں کی تعمیر کے لیے عالمی بنک نے ایک بلین ڈالرز کا قرض دیا۔ سندھ طاس معاہدے کی بدولت دریائی پانی کی تقسیم کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو گیا مگر پاکستان کی طرف جاری و ساری پانی پر وولر، بگلیار، ساگر اور سلاسل ڈیم اور گنگا فرخانہ بند کی تعمیر سے بھارت مسلسل سندھ طاس کے معاہدے کی خلاف ورزیوں مرتکب ہوا ہے ۔ انڈیا پاکستان کی طرف بہتے پانی سے بجلی تو پیدا کر سکتا ہے مگر ان پر پاکستان کی مرضی کے خلاف ایسے ڈیزائن کے ڈیمز، بیراج یا ریزروائرز نہیں بنا سکتا ہے جسکا اثر ہمارے پانی کی فراوانی پر پڑے۔ آج انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی مذموم حرکت کی ہے حالانکہ گزشتہ چار سال سے انڈیا پاکستان کے ساتھ واٹر کمشنر ز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا ہے اور پاکستان کو دریاؤں کے پانی کا محض 30 سے 40 فیصد ڈیٹا فراہم کر رہا ہے مودی سرکار پہلگام میں دھشت گردی کے واقعہ کی آڑ میں سندھ طاس معاہدے کو بطور "ہتھیار" پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے جو آبی جارحیت کے زمرے میں آتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ سابق ایڈیشنل واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا ہے "قلیل مدتی لحاظ سے اسکا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ فی الوقت انڈیا کے پاس ایسے ریزروائرز نہیں ہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے پانی کا ذخیرہ کر پائے تا ہم اگر یہ تعطل طویل مدت تک جاری رہتا ہے تو خدشہ ہے کہ انڈیا پاکستان کی طرف پانی کا یا تو رخ موڑ دے یا ایسے ڈیمز، بند اور بیراج بنا لے جس سے پاکستان کو اس کے حصے کا مکمل پانی نہ ملے "انڈیا کے خلاف پاکستان اس مسئلے کے حل کے لیے بین الاقوامی عدالت میں بھی جا سکتا ہے۔ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘کے مترادف بھارت نے کشمیر میں سیاحوں کے بے گناہ قتل میں اپنی ناقص سکیورٹی اور جموں کشمیر کے متنازعہ علاقے میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کو وجہ ماننے کی بجائے اس نے پاکستان پر الزام لگا دیا ہے۔ ہندوستان کا خیال تھا کہ کشمیر میں عوام کا غیض و غضب ٹھنڈا پڑ گیا ہے لہذا سیاحت کو "سیاسی پراجیکٹ" کے طور پر استعمال میں لایا جائے ان سیاحوں کی ہلاکت کی ذمہ داری ریزسٹنس فرنٹ نے قبول کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مودی سرکار نے چند سال میں 85 ہزار انڈین شہریوں کو ڈومیسائل دیا یہ لوگ سیاح بن کے آتے ہیں اور پھر ان کی اکثریت یہاں آباد ہوجاتی ہے لہذا ان کے خلاف تشدد کیا جائے گا کشمیریوں کو لگتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے ان کی عزت، شناخت اور سیاسی، اقتصادی آزادی کو خطرہ ہے جسکی وجہ سے وہاں کے نوجوانوں نے بندوق اٹھا رکھی ہے اگر چہ بے گناہ لوگوں کی ھلاکت کو نہ تو کشمیری اور نہ ہی پاکستانی عوام سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی انسان کا قتل ظلم عظیم ہے مگر ہندوستان کی سرکار ہو، اسرائیل کی سرکار یا کوئی بھی غاصب حکومت کیوں نہ ہو اسے اپنی پالیسیوں کے خلاف سول احتجاج کو دبانا نہیں چاہیے وگرنہ اس سے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے کشمیری حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی ترجمان افزا جان کا کہنا ہے۔ "کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا براہ راست اثر کشمیریوں پر پڑا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انڈین فورسز کے ہزاروں جوان، اقلیتی شہری اور سیاح بھی مارے گئے ہیں امن کے لیے ضروری ہے کہ کشمیریوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے انہیں دیوار سے لگانے کی بجائے آن بورڈ کرنا ہو گا تبھی حالات بہتر ہوں گے "کاش یہ بات مودی سرکار سمیت فسطائیت کے تمام علمبرداروں کی سمجھ میں آجائے۔