پاکستان خلائی دوڑ میں شامل
نصرت مرزا
یہ درست ہے کہ پاکستان سٹیلائٹ کے میدان میں انڈیا سے کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ انڈیا کا ISROیعنی انڈین ریسرچ آرگنائزیشن ،پاکستان کے ادارے SUPACOسے زیادہ کام کرچکاہے۔ کیونکہ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ جبکہ سپارکو کو جو1962میں ایشیا خلاء میں اپنا رہبرI اور رہبرII راکٹ لانچ کر چکا تھا۔ اور ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کررہاتھا۔ اس کو ایکدم بریک لگادیاگیا۔ امریکا کے پاکستان میں امریکی سفیر نے 1962میں اپنے صدر کو لکھا کہ اگر پاکستان اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو وہ 20سال کے عرصے میں عالمی طاقت بن سکتاہے۔ چنانچہ امریکی صدر نے پاکستان کو فکس کرنے کا حکم دیا۔اُس حکم کی وجہ سے تو 1965کی جنگ ہوئی۔ ملک میں انتشار پھیلا ،ایوب خان کو نکالاگیا، اور جنرل یحٰی کو حکمرانی دلوائی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمان کی مدد سے مشرق ومغربی پاکستان کو الگ کیاگیا۔1965میں پاکستانی فوج کا جو طاقت کا سکہ جماتھا وہ ٹوٹ گیا اور مسلمان دنیا نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ تسلیم کرنے کا جوخواب دیکھناشروع کیاتھا چکنا چورہوگیا۔ البتہ سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کی مدد کو آئے اور انہوں نے پاکستان کو سہارا دیا۔ پاکستان کے انجینئرز ،ڈاکٹرز اور بڑی تعداد میں کاریگروں کو سعودی عرب میں ملازمت دیکر پاکستان کو پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔ مگرسپارکو کو اٹھنے نہیں دیا۔ میں اٹلی میں رہائش پذیر تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر میںسپارکو کے چیئرمین خالد محمودصاحب سے کراچی آکر ملا۔تو انہوں نے مجھے بتایا کہ فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔ اور کیوں دستیاب نہیں ہیں ؟وہ میری سمجھ میں آگیا تھا۔ شاید بھٹو صاحب کو اس طرف توجہ دینے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ وہ ایٹمی طاقت کے حصول میں جُت گئے۔ ایک عرصہ دراز خاموشی کے بعد بالاخر پاکستان خلائی میدان میں اترآیاہے اور انڈیا کے مقابلے میں خلائی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے مگر ابھی بہت پیچھے ہے۔ انڈیا کے درجنوں سیارچے فضا میں تیر رہے ہیں۔ جن میں ملٹری مقاصد کیلئے بھی ہیں اور سویلین کیلئے بھی۔ مگر پاکستان صر ف8سیارچے ہی خلامیں بھیج سکاہے۔میرے دوست ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم اس دوڑ میں شامل ہوہی گئے ہیں تو کسی نہ کسی وقت انڈیا کے برابر ہی نہیں آگے بڑھ جائیں گے۔ اعتراف کرتے ہیں کہ انڈیا کا خلائی جہاز چاند پر اتر گیا ہے اور کام کررہاہے۔ مگر اس کا روور(ROVER)کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس کئی سیارچے تیار حالت میں پڑے ہیں اور ضرورت کے وقت یا وقفے وقفے سے وہ ان کو خلا میں بھیجتے رہیں گے۔ چاند پر بھی اپنا خلائی جہاز بھیجنے کی تیاری ہے اس کی اسٹڈی کرلی گئی ہے۔ وہان پتھروں کی بارش ہوتی رہتی ہے اس لئے کسی مناسب جگہ کی تلاش اور اس ماحول میں اپنے خلائی جہاز بمعہ روور(ROVER) کو حفاظت سے اتارسکیں اور انہیں کام کرنے کا سازگار ماحول میں میسر آسکے۔ اور اسے زمین سے کنٹرول بھی کیاجاسکے۔ ہمارے دریافت کرنے پر ہم کب خلائی جہاز چاند پر بھیج سکیں گے تو انہوں نے وقت کا تعین تو نہیں کیا البتہ یہ کہا کہ مناسب وقت پر یہ کام ہوجائے گا۔ اس سے ہم نے اندازہ لگایا سال دوسال یا اس سے پہلے شاید یہ خوشخبری سننے کو ملے۔ البتہ ہمارے سائنسدان زمین پر تغیر اور موسمیاتی تبدیلی کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں جتے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہماری سمجھ میں آئی کہ ہمارے سائنسدان معیار پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ یورپی اور امریکی معیار کے سیارچے بناتے ہیں۔ پاکستان کے اب تک 8سیارچے LEOلوئرزمینی آربٹ میں موجود ہیں ممکن آدھے درجن کے قریب اورسیارچے وہ جلد یا دیرلانچ کردیں۔ جبکہ انڈیا کے پاس 127سیارچے 2023تک فضامیں تیررہے تھے۔ ان میں تین ملٹری مقاصد کے سیارچے ہیں ۔ ان میں ایک کانام GSAT-7(رکنی) یہ انڈین بحریہ کے استعمال میں ہے اور GSTA-7A (ناراض پرندہ) یہ ایئرفورس کے استعمال میں ہے ۔ اس کے علاوہ ایک GSTA-7Bسیارچہ بھی انڈیا کی ملٹری کے استعمال میں ہے۔ اور ان کے مواصلات کی ضرورت کو پورا کرتاہے۔ مگر ہم جب 27فروری 2019کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان نے ان تمام سیارچوں کو بے بس کرکے رکھ دیاتھا۔ اور 27فروری 2019 کووہ ہڑبونگ مچائی تھی کہ ان کا سارا نظام منجمد کردیا۔یہاں تک کہ ابھی نندن اپنے زمینی اسٹیشن سے بھی رابطہ نہ کرسکے اور نہ ہی زمینی عملہ اسکا جو ہیلی کاپٹر لڑاکا طیارہ سوخئی 30 جسکو پاکستان نے مار گرایاتھا،کے ملبہ کواٹھانے کیلئے اڑاتھا پہنچان سکے کہ وہ دشمن کا ہے یا خود اپنا ہی ہے اس لئے انہوں نے اس ہیلی کاپٹر کو بھی مارگرایا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ پاکستان کے پاس کچھ اضافی صلاحیت موجود ہیں جن کا وہ کھل کر اظہار نہیں کررہاہے۔ جہاں تک خلائی دوڑ میں پاکستان کی شمولیت کی بات ہے تو اس میں اب شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ پاکستان نے کمرباندھ لی ہے اور اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اس دوڑ میں انڈیا کو بہت آگے نہیں جانے دے گا جیسا کہ اس نے فضائیہ کے میدان میں اس پر سبقت حاصل کی ہے اسی طرح وہ خلائی میدان میں آج نہیں تو چند سالوں میں انڈیا سے سبقت لے جانے کی کوشش کریگا۔ وہ بھی جدید طریقے اور تیزرفتار طریقہ سے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے پاس سیارچہ کیلئے لانچنگ پیڈ نہیں ہے مگر ہمارے سائنسدانوں کیلئے یہ مشکل بات نہیں ہے اگر ان کو فنڈز فراہم کردیئے جائیں تو یہ کام دوچار سال میں مکمل کرلیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ انڈیا کے لانچنگ پیڈ سے بہت سے یورپی ممالک فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انڈیا سے دولت بھی کمارہاہے مگر صرف اس پر امریکا کی کرم نوازی ہے جس نے 2005سے اسکی مدد کی پاکستان پر تو پابندیاں ہیں مگر پاکستان ان پابندیوں کے بیچ ایٹم بم بنایاتھا۔ وہ بھی انتہائی جدید قسم کا تو وہ ملٹری سٹیلائٹ بھی بناسکتاہے چاند پر بھی اترسکتاہے۔ اور ہمارے سائنسدان دوسرے ستاروں اور سیاروں کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کہاں انسانی مسکن بن سکتاہے۔ وہ بھی تلاش کرڈالیں گے وہ جس تیزی سے کام کررہے ہیںاس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ وہ صحیح سمیت میں بڑھ رہے ہیں۔ دیرتو سائنس کے کاموں میں لگتی ہے سو وہ تو لگے گی۔