پاکستان غیرملکی جریدے کو سبق سکھائے !
علی احمد ڈھلوں
دنیا بھر کے 180سے زائد ممالک نے ایک دوسرے کے ملک میں اپنا تشخص بحال رکھنے کے لیے سفیر رکھے ہوئے ہیں، وہ اپنے ملک کے تقدس کو ہر صورت بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کبھی اپنے ملک پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اس کی تازہ مثال پاکستان میں تعینات چینی سفیر کی لے لیں کہ ایک تقریب جس میں چینی سفیر بھی تھے میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے فرمایا کہ پاکستان دنیا میں چین کا واحد دوست ہے، کہ جہاں اُس کے شہری جاں بحق ہو بھی جائیں تو وہ کام جاری رکھتا ہے، لیکن چین یہ ’’رعایت‘‘ کسی اور ملک کو نہیں دیتا۔ اب اسحاق ڈار نے نہ جانے یہ بات کس Context میں کہی لیکن انہوں نے ڈھینگ مارنی تھی، مار لی۔ اس پر چینی سفیر جو پہلے ہی اپنی باری کی تقریر کر چکے تھے نے دوبارہ مائیک پر بات کرنے کے لیے انتظامیہ سے درخواست کی،اجازت ملنے پر چینی سفیر نے خبردار کیا کہ چین اپنے شہریوں کی جان و مال کو سب سے پہلے ترجیح دیتا ہے، لہٰذاپاکستان کے ساتھ ایسا کوئی فضول معاہدہ ہم نے نہیں کیا ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے چینی سفیر نے اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کا ڈٹ کر دفاع کیا اور اُنہیں کرنا بھی چاہیے تھا کیوں کہ ہر سفیر کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اُسے سب سے پہلے پرائے ملک میں اپنے وطن کا دفاع کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ دیگر ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ ہمارے سفیروں والے ڈیپارٹمنٹ کا بھی برا حال ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں ہماری رسوائی ہو رہی ہے جبکہ سفراء حضرات خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کبھی بھارتی و افغان، و امریکی لابی ہمیں ذلیل و خوار کر رہی ہوتی ہے تو کبھی اپنے ہی لوگ ہماری حکومتوں اور اداروں کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے سفیر اُن کے خلاف کارروائی کریں۔ جیسے حال ہی میں امریکی جریدے ’’ڈراپ نیوز سائیٹ‘‘ نے 27نومبر کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ اُس رات کیا کیا ہوا، اس رپورٹ میں جریدے نے ہمارے سکیورٹی اداروں پر الزاما ت عائد کیے ہیں کہ اُس دن وحشیانہ کریک ڈائون کیا گیا۔ یہ رپورٹ ایشین امور کے انوسٹی گیٹو جرنلسٹ مرتضیٰ حسین اور ریان گرائم کی کریڈٹ لائن سے شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں شائع ہونے والے انکشافات کے مطابق ’’ پاکستان کی حکومت نے مظاہرین پر تشدد کا منصوبہ پہلے سے بنا رکھا تھا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی حکومت خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے حامیوں سے کتنی خوفزدہ ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے انکار کررہی ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا۔ مضمون میں مزید تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے کہ 26 نومبر کو خان نے اسلام آباد میں مظاہروں کی اپیل کی تھی۔ ان کی اپیل پر ہزاروں پی ٹی آئی کے حامی ملک بھر سے اسلام آباد پہنچے، راستوں میں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے، انٹرنیٹ کی بندش اور آنسو گیس کے گولوں کا سامنا کرتے ہوئے۔ ایک گروپ کی قیادت خان کی اہلیہ بشری بی بی نے کی، جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کی۔ مظاہروں کی تیاری کے دوران پاکستانی حکومت نے سوشل میڈیا ایپس جیسے واٹس ایپ کو بند کر دیا اور فوج کو دارالحکومت میں طلب کر لیا، اسے فائر کرنے کا حکم دے دیا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ مظاہرین اسلام آباد نہیں پہنچ سکیں گے۔ لیکن 26 نومبر کی شام تک، وہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں پہنچ چکے تھے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت کا مشن یہ تھا کہ مظاہرین کو ڈی چوک سے پیچھے دھکیل دیا جائے، جو حکومت کے دفاع کی آخری لائن تھی۔پہلے مرحلے میں افراتفری اور خوف پھیلانے کا مقصد تھا۔ جناح ایونیو کی روشنیوں کو بجھا دیا گیا، جس سے پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔وغیرہ وغیرہ اب اس رپورٹ کی وجہ سے جہاں بیرون ملک پاکستانیوں سے سوال کیے جا رہے ہیں کہ کیا آپ کے ملک میں خانہ جنگی کی سی صورت حال ہے وہیں ہمارے سفیر بجائے اُس نیوز سائٹ پر مقدمہ کرنے کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اگر لابنگ سیکھنی ہے تو ہمیں بھارت سے سیکھنی چاہیے کہ کس طرح اُس نے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر لابنگ کر کے اُسے کسی حد تک تنہا کر دیا ہے، اُس لابنگ کے ذریعے پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے، وہ انٹرنیشنل میڈیا پر پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے لیے لابنگ کرتا ہے، اُس کی لابنگ اس قدر تیز ہے کہ اُس نے جیسے تیسے کرکے ہمیں مقبوضہ و جموںکشمیر کے معاملے پر مکمل خاموش کروا دیا ہے۔ لیکن ہماری لابنگ کرنے والے شاید سوئے ہیں یا اُنہیں فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی قدم اُٹھا لیں۔ حالانکہ مذکورہ بالا رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ دیئے گئے حقائق کے بارے میں پاکستانی حکومت میں اتنی جرأت نہیں ہے، کہ اُس نیوز سائیٹ کے خلاف مقدمہ دائر کر سکیں۔ یہ تردید بھی نہیں کریں گے۔ لہٰذامیرے خیال میں حکومت کو یا اداروں کو ’’ڈراپ سائٹ نیوز‘‘ کے خلاف مقدمہ درج کروانا چاہیے۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کیوں کہ یہ وہ جریدہ ہے جس نے یہ انتشار پھیلایا ہے، جس نے امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، وہ پریشان ہو گئے ہیں کہ ہمارے ادارے کیا کر رہے ہیں ؟ اس لیے میرے خیال میں اگر رپورٹ میں لگائے گئے الزامات سچ ہیں تو پھر ہمیں پراسرار خاموشی اختیار کر لینی چاہیے جیسے ہم کرتے آئے ہیں ، لیکن اگر ان میں حقائق نہیں ہیں تو خدارا اس ملک کو بچائیں، کون ایسے حالات میں پاکستان میں سرمایہ لگانے کا سوچے گا؟ کیا اس حوالے سے پاکستان کو بھی اپنی لابنگ مضبو ط کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ تو یہ لابنگ کس نے کروانی ہے؟ کیا پاکستان کو اپنا کیس مضبوطی سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے؟ تاکہ وہ ذمہ داران جنہوں نے پاکستان کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی ہے، اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا ئے۔ اور پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر پاکستان شہہ سرخیوں میں آئے گا کہ دیکھا اُس روزواقعی کچھ نہیں ہوا تھا، اور اس کا دوسرا بڑا فائدہ ہوگا کہ آئندہ کوئی غیر ملکی جریدہ پاکستان کے خلاف مواد شائع کرنے کے حوالے سے محتاط ہو جائے گا ۔ لیکن اگر ہم نے ماضی کی طرح اس پر بھی خاموشی جاری رکھی تو بس پھر سمجھ لیں کہ واقعی دال میں کچھ کالا ہے!