کھال مت بچائو!
محمد صغیر قمر
انڈونیشیا سے مراکش تک دیکھ لیجیے ہمارے قائدین غول در غول ہیں ۔ گروہ در گروہ ’’ راہبروں ‘‘ کی کوئی کمی نہیں ‘ لیکن اکثریت بھیڑ کی کھالوں میں لپٹے ہوئے بھیڑیوں کی ہے ۔ ٹیپو سلطان نے کہا تھا ’’ سو گیدڑوں کا قائد شیر ہو تو گیدڑ شیر بن جاتے ہیں اور اگر سو شیروں کا سربراہ ایک گیدڑ ہو تو سو شیروں کے گیدڑ بن جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔‘‘ بد قسمتی سے اس شیر دل امت کے قائدین میں شیر خال ہی نظر آتے ہیں ۔ رونا اس بات کا نہیں کہ’’ رہنما ‘‘ کم ہیں،رونا یہ ہے کہ ہمارے اپنے باغبانوں نے بصیرت کی کمی سے اس چمن کو اجاڑنے میں ہمیشہ غیروں کا ساتھ دیا اور بدقسمتی دیکھیے کہ برس ہا برس کے بعد بھی مسلمانوں کے ان کھیون ہاروں کا کردار نہیں بدلا ۔ یہ آج بھی مسلمانوں کی نائو کو ڈبونے میں غیروں کے ہاتھوں میں چپو بنے ہوئے ہیں۔پاکستان بن تو گیا ،نا قابل یقین معجزہ ہو گیا ‘ ہمارے بہت سے رہبر نما رہزن کبھی اسے حقیقت ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ان کی ایک بڑی تعداد پاکستان نہ آئی ۔ بھارت میں ہی رہ گئی ۔ کیا اچھا ہوتا وہ پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دل سے تسلیم کر لیتے ‘ لیکن وہ اپنے غلط فلسفے پر اڑے رہے ۔بدنصیبی دیکھیے کہ پون صدی تک یہ لوگ بھارت کے اسلام دشمن اور پاکستان دشمن حکمرانوں کے دوست رہے مگر ان کو پاکستان کے قریب لانے کے بجائے دور کرتے رہے ۔ اس نظام کے ماننے والوں نے کبھی ووٹ کی پرچی ان کے دامن میں نہ ڈالی ۔ ان ہی میں ایک شیخ عبداﷲ بھی تھے۔ شیخ جی قائد اعظم کے ’’ گناہوں ‘‘ کی سزا ہمیشہ پاکستان کو دیتے رہے ۔ ہمیشہ قول وعمل سے پاکستان کے لیے اپنی نفرت ثابت کرتے رہے لیکن عوام کو پاکستان سے محبت تھی ‘ اس لیے یہ سبز رومال اور نمک کی ڈلی سے کشمیری قوم کو بہلاتے رہے۔ بد قسمتی سے ان کی پیدائش ایک اسلامی گھرانے میں ہوئی تھی ۔اس ’’ جرم ‘‘ کی سزا انہوںنے مسلمانوں کو ہی دینا تھی اور جی بھر کر دی ۔ آج ان کی قبر پر فوجی پہرے دار اس خدشے سے کانپ کانپ جاتے ہیں کہ کہیںلوگ ان کی ہڈیاں نکال کر جلا نہ ڈالیں۔مشرق میں بسنے والے ہمارے بنگالی بھائیوں کے بھی ایسے نام نہاد ’’ رہنمائوں ‘، کو قومیت کا خمار چڑھا۔ بھارت نے شہ دی ۔ سازش کی دھند میں اپنوں کے چہرے دھندلا گئے ۔ بنگالیت پر انہوںنے پاکستانیت قربان کر دی ۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے پڑوس مغربی بنگال کے ہندو بنگالی جو بنگالی ہونے کے باوجود ان کے لیے ایسے ہی اجنبی ہیں جیسے دوسرے صوبوں کے ہندو ۔ ان جعلی لیڈروں کے نزدیک مسلمان ہونا سب سے بڑا گناہ تھا۔ چنانچہ اس گناہ کی سزا انہوںنے پاکستان کو دی ۔ پاکستان ٹوٹ گیا ‘ لیکن اس کو توڑنے والے پنپ نہ سکے۔ عوام نے ان جعلی قائدین کو ایسی سزا دی کہ ان کے نظریے سمیت انہیں عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا۔ ہندو مسلمان بھائی بھائی کے نعرے الاپے ۔ جناح کیپ کی مخالفت میں گاندھی اور نہرو کی دو پلی ٹوپیاں سروں کی زینت بنائیں ۔ ان کی یہ محبت ان کے کسی کام نہ آئی ۔ عافیت پسندی ا ور عدم تشدد کی پالیسی نے کیا رنگ دکھایا ۔ سات دہائیوں میں پچانوے ہزار ہندو مسلم فسادات ہوئے ۔ لاکھوں مسلمان تہہ تیغ کر دیے گئے ۔ زندہ جلا دیے گئے ۔ ہندو نواز مسلمان دیکھتے رہ گئے ‘ ہندو ان کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کا لہو پیتے رہے وہ کسی ظالم کا ہاتھ روک سکے نہ کسی مظلوم کی اشک شوئی کر سکے ۔ اہنسا کے پجاریوں کی پیاس کبھی نہیں بجھی ۔ان کی ہوس مسلم کشی بڑھتی گئی۔ ابھی شاید پاکستان دشمن ’’ مسلم رہنمائوں ‘‘ کی خوش فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوتا کہ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ پیش آ یا جس نے ان کی غیروں سے امید اور ایک قومی نظریے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ۔ ہندوئوں کی روایتی مکاری اور مسلم دشمنی ایسی کھل کر سامنے آئی کہ منہ چھپاتے پھرتے۔ہمارے رہنما اپنے تمام تیر تکے آزما کر ناکام ہوئے ‘ وہ مانیں یا نہ مانیں تاریخ انہیں رد کر چکی ہے ۔ وقت نے ان کا فلسفہ رد کر دیا ۔ بنگال اور کشمیر نے ان کی منطق ٹھکرا دی اور ان کے بودے فلسفے کو بوڑھی گنگامیںڈبو دیا ۔ بھارتی مسلمانوںنے ان رہنمائوں سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں،وہ ان کی امیدوں پر کبھی پورے نہ اترے ۔قومیت کی محبت نے ہمیں کچھ نہ دیا ۔ ہمیں کوئی چیز ایک رکھ سکتی ہے تو وہ اسلام کا نظریہ ہے۔ رنگ ‘ زبان اور کلچر کی بنیاد پر صوبوں کی تشکیل کوئی بنیاد نہیں ہے ۔اس کشمکش میں قائدین پڑتے تو پاکستان کیسے بنتا ۔ ایک قوم کی حیثیت سے مسلمانوں کو زندہ رہنے کا سبق دوسری اقوام سے سیکھ لینا چاہیے تھا ۔ استعماری طاقتیں جو خود تو ایک ایک کر کے متحد ہو رہی ہیں مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر بے بس کر دینا چاہتی ہیں ۔ اس سے اختلاف نہیں کہ ملک بھی بننے چاہئیں اور صوبے بھی ۔ لیکن جن قوموں نے دنیا میں قوت بننا ہوتا ہے وہ رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوتیں ۔ٹکڑوں کی سیاست ناکام ہوچکی ہے۔جموں کشمیرکے مسلمان مودی کی دھوکہ دہی سے پریشان ہوکر ایک بار پھر شیخ عبداللہ کے پوتے کے پاس چلے گئے ہیں ۔ اس شر سے خیربرآمدہو یا نہ یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسلام ہی ہمیں جوڑ سکتا ہے اور یہ تجربہ بنگالیوں نے بھی مکمل کرلیا ہے۔استعمار خود جمع ہو رہا ہے اور ہمیںٹکڑوں میں بانٹ کر ختم کرنا چاہتاہے۔غول در غول ’’ رہنمائوں ‘‘ کی کھالوں میںــ’ گیدڑوں‘‘ کے جسم ہیں۔یہ خود بھی سہمے ہوئے ہیں اور امت کی شیرازہ بندی کی بجائے اسے ہشکار رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ یہ غیروں کے ساتھ مل کرامت ہی کو کھا رہے ہیں۔ہماری سلامتی اور ہماری بقاصرف اور صرف ایک امت بننے میں پنہاں ہے۔فرقے ،ٹکڑے،بادشاہتیں،آمریتیں اورنمام نہاد سپر طاقتوں کے سامنے سر خم کرکے یہ قائدین اپنی کھال کبھی بچا نہیں پائیں گے۔یہ اس دنیا کا قانون ہے، یہ تاریخ کا سبق ہے۔کھالیں اتریں گی اور ان کے اندر سے بدبودار گیدڑ بھاگیں گے،آج نہیں تو کل!!