ہمارے حکمران کب سمجھیں گے؟
سجاد میر
حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی اشاریے مثبت ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ ملک بحران سے نکل رہاہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ افراط زر یعنی مہنگائی میں کمی آرہی ہے۔ جب کہ عام آدمی کو شکایت ہے کہ مارکیٹ میں مہنگائی اُس طرح ہے جس طرح پہلے تھی۔ بنیاد ی اشیائے صرف کی قیمتوں میں معمولی آئی ہے تو اگلے روز قیمت پھر بڑھا دی جاتی ہے۔ حکومت نے جو سستے بازار قائم کیے ہیں ، اُن میں بھی مہنگی اشیاء فروخت ہو رہی ہیں۔ مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو حکومت کی جانب سے عائد ہونے والے ٹیکس ہیں۔ ٹیکس سے وصول ہونے والی آمدنی میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ جس کیلئے ہر بجٹ میں نئے ٹیکس لگا دئیے جاتے ہیں۔ نئے ٹیکسوں کا بوجھ تاجر یا صنعت کار آخر کار، صارفین یعنی تمام شہریوں کو منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہاہے۔ حال ہی میں حکومت چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نے نیٹ میں لانے کیلئے جو تاجر دوست سکیم شروع کی ہے۔ وہ تاجران کی مخالفت کے باعث کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔حکومت کا تخمینہ تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں تاجر اس نئی سکیم کے تحت اپنے آپ کو رجسٹرکرائیں گے۔ لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ چند ہزار تاجران نے بمشکل رجسٹریشن کرائی ہے۔ حکومت نے پیڑول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کی ہیں لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ عام آدمی تک نہیں پہنچ پا رہا۔ پیڑول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہونا چاہیئںلیکن کرایوں میں کمی نہیں ہو رہی ۔ حکومت کے دبائو کے تحت جو تھوڑی بہت کمی ہوتی ہے وہ محض دکھاوے کیلئے ہوتی ہے ۔ حکومت جو کرایہ نامہ قرار کرتی ہے اُس پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ تاجر خاص طورپر سبزی فروٹ اور دوسری اشیائے صرف کا کاروبار کرنے والے پیڑول اور ڈیزل مہنگا ہونے کا بہانہ کرکے اشیائے صرف کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو چکا ہے اس کے بوجھ تلے لوگ بلبلانے لگے ہیں۔ بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ کچھ شہریوں نے بجلی کا بل دیکھ کر خودکشی کرنے کی کو شش کی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تو صنعت کار اور بڑے کاروباری طبقات بھی چیخنے لگے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر نے واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ جب تک بجلی کی قیمت کم نہیں ہوتی اُس وقت تک ٹیکسٹائل کی برآمداات میں اضاجہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ اُن کے تیار کردہ مال کے مقابلے میں چین، بھارت ، بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک ٹیکسٹائل کی سستی اشیاء فراہم کررہے ہیں۔ Independent power plants جنہیں آئی پی پیز کہا جاتا ہے اس وقت ہر جگہ زیر بحث ہیں۔ بجلی بنانے والے یہ پلانٹس جو نوے کی دہائی میں عوام دشمن شرائط پر لگوائے گئے تھے۔ اس وقت ملکی معیشت کیلئے ایک عذاب بن گئے ۔ ایک درآمد شدہ تیل ، کوئلہ اور دوسر ے ایندھن سے چلنے والے یہ پلانٹس بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتیں بڑھنے کے بعد بجلی بے حد مہنگی کر دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان پلانٹس کے ساتھ حکومت نے معاہدہ کیا ہے کہ اُن کے پلانٹس جتنی بجلی بھی پیدا کرتے ہیں وہ اُن سے خریدی جائے گی اور اگر اُن سے بجلی نہ بھی خریدی جائے تو انہیں ادائیگی کی جائے گی ۔ یعنی کپیسٹی پیمنٹ کی جائے گی۔ یہ ایک ظالمانہ اور غیر منصفانہ شق ہے جو آئی پی پیز کے ساتھ سمجھوتہ میںشامل کی گئی ہے۔ خبریہ بھی کہ کھربوں روپے ان آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیداکئے ادکئے جا چکے ہیں جس سے قومی خزانہ دیوالیہ ہو چکاہے۔ اب وزیر توانائی کہتے ہیں کہ آئی پی پیپز کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے کہ اُن کے ساتھ طے ہونے والی شرائط قابل عمل نہیں ہیں ۔ ملک کا ستیاناس ہو چکا ہے۔اگر واقعتا آپ نے یہ کام بہت پہلے کر دیا جانا چاہیے تھا۔ ایک طرف تو معیشت کا یہ حال ہے اور دوسری طرف سیاسی محاز آرائی اور جھگڑے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔پارلیمنٹ کے اجلاس ہوتے ہیں جس میں عوام کی فلاح کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہویت۔ گالم گلوچ اور نعرے بازی کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا جو قانون سازی کی جاتی ہے وہ چند طبقات کے فائدہ اور چند کو نقصان پہنچانے کیلئے ہوتی ہے۔ اس سے پاکستان کا امیج تباد ہو رہاہے۔ ہمارے حکمران بار بار سیاسی استحکام اور سیاست کی بات کرتے ہیں لیکن عملاً جو کچھ کیا جار ہاہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنا مقصود ہے تو زبانی کلامی نہیں سنجیدگی کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی اور معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا پڑے گا ۔ ہمارے خیر خواہ اور اچھے دوست ملک چین ، سعودی عرب ، عرب امارات اور امریکہ بھی یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان کو اپنے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے داخلی طور پر استحکام پیدا کرنا ہوگا۔نہ جانے ہمارے لیڈروں کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی؟