’چند احکام‘کا مغالطہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورہ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ یہ طریقِ کار غامدی صاحب کئی دوسری جگہوں پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ سورہ الاعراف کی آیت 33 کا حوالہ دے کر بہ اصرار اور بہ تکرار فرمایا کہ اللہ نے صرف پانچ کاموں سے روکا ہے : بے حیائی ، گناہ ، سرکشی ، شرک اور اللہ پر جھوٹ باندھنا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے بیٹھے نوجوانوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اس آیت میں ’فواحش‘ کا لفظ آیا ہے، جو واحد نہیں بلکہ جمع ہے۔ نہ ہی وہ انھیں یہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد قرآن نے کہا ہے (جو ان بے حیائی کے کاموں میں آشکارا ہوں اور جو چھپے ہوں ، دونوں کو اللہ نے حرام کیا ہے )۔ نہ ہی وہ یہ بتاتے ہیں کہ فواحش سے کیا اردو اور برصغیر کے عرف والی ’بے حیائی‘مراد ہے یا ساتویں صدی عیسوی میں عرب معاشرے میں جن کاموں کا فواحش سمجھا جاتا تھا ، یا یہ قرآن کی کوئی مستقل اصطلاح بن گئی ہے جس کا مفہوم قرآن اور سنت سے متعین کرنا ہوگا؟ پھر وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ جس لفظ (الاثم) کا ترجمہ انھوں نے گناہ کیا ہے ، اس کے مفہوم میں ’حق تلفی‘ شامل ہے اور یہ کہ یہ حق تلفی دو طرح کی ہے : اللہ کے حق کی عدم ادائیگی اور بندے کے حق کی عدم ادائیگی۔ نتیجتاً ، یہ لفظ بھی ایک جامع اصطلاح بن گیا ہے جس میں وہ تمام کام شامل ہیں جن کی ممانعت شریعت کے نصوص یا عمومی اصولوں سے معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سود کا ذکر اس آیت میں نہیں ہے ، نہ ہی ناپ تول میں کمی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ کام اثم کے مفہوم میں شامل ہیں۔ یوں جنھیں وہ ’صرف پانچ‘کام بتاتے ہیں، وہ درحقیقت سیکڑوں کاموں پر مشتمل ہیں لیکن غامدی صاحب کے متاثرین کا دھیان اس طرف نہیں جاتا اور یوں وہ سادہ فکری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس سادہ فکری کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ’اللہ پر جھوٹ باندھنے‘سے مراد صرف یہ لیتے ہیں کہ جو کام اللہ نے حرام نہیں کیا اسے حرام قرار دیا جائے ، حالانکہ بعینہ اسی طرح اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ بھی ہے کہ جو کام اللہ نے حلال نہیں کیا اسے حلال قرار دیا جائے ! خود قرآن نے سورہ النحل، آیت 116میں تصریح کی ہے : ’’اور اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگاؤ۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹی تہمت لگائیں گے وہ ہرگز فلاح نہیں پائیں گے۔ان کے لیے چند روزہ عیش اور دردناک عذاب ہے۔‘‘پس جس طرح تحریم اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے ، اسی طرح تحلیل بھی اسی کا اختیار ہے۔ جو لوگ اللہ کے حرام کردہ کو حلال قرار دے رہے ہیں وہ وہی جرم کررہے ہیں جو وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ کے حلال کردہ کو حرام کرتے ہیں۔ اب آئیے حکومت و سیاست کے ’چند احکام‘کی طرف۔ کیا واقعی یہ محض ’چند احکام‘ہیں؟ جن چار احکام کا ذکر کیا گیا ہے ، انھی پر غور کریں۔ کیا نماز قائم کرنا بس ایک ہی سیدھا سادہ حکم ہے یا اس کا کوئی تفصیلی نظام اور ضابطہ ہوگا جو حکومت نے نافذ کرنا ہوگا؟ پھر زکوۃ کے نظام کی تفصیلات پر غور کریں۔ پھر نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی طرف آئیے۔ کیا واقعی بس دو مختصر سے ، سادے سے احکام ہیں ؟ معروف اور منکر میں کیا کچھ آتا ہے؟ صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ مولانا اصلاحی نے سورہ النحل کی آیت 90 میں منکر کی ممانعت کوسورہ بنی اسرآئیل کی آیات 33 تا 37 میں مذکور تفصیلی نواہی سے منسلک کرکے یہ موقف اپنایا ہے کہ سورہ بنی اسرآئیل میں جن پانچ کاموں سے روکا گیا ہے انھی کو سورہ النحل میں منکر کہا گیا تھا۔ یہ پانچ کام درج ذیل ہیں: قتل نفس ، یتیم کا مال ہڑپ کرجانا ، وعدے کی خلاف ورزی ، ناپ تول میں کمی اور دوسروں کے عیب تلاش کرنا۔ پھر ان پانچ کاموں کے علاوہ بھی بہت سارے منکرات ہیں جن کی روک تھام حکومت کا کام ہے اور بہت سارے معروفات ہیں جن کی ترویج کے لیے حکومت نے کام کرنا ہوگا۔ معاملہ صرف قصاص، حدود اور دیگر سزاوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سود ، قمار بازی ، جوا ، اور بہت سارے ان کاموں پر حاوی ہے جنھیں غامدی صاحب ’قانونِ سیاست‘کے بجائے ’قانونِ دعوت‘، ’قانونِ معیشت‘ ، ’حدودو تعزیرات‘اور ’قانونِ جہاد‘وغیرہ میں ذکر کرتے ہیں۔ یہ سارے کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے سادہ سے حکومتی فریضے کی تفصیل میں آتے ہیں۔ ان مقامات پر بھی غامدی صاحب ہر جگہ تسہیل کی کوشش میں سادہ فکری کو ترویج دیتے ہیں۔ چنانچہ کہیں ’سات آٹھ احکام‘، کہیں ’پانچ چھے احکام‘ ذکر کرتے ہیں اور بس،حالانکہ ان میں ہر حکم کے کئی تفصیلی تقاضے ہوتے ہیں اور تفصیلی احکام بھی شریعت کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ سارے کام مسلمانوں کی حکومت نے کرنے ہیں تو پھر وہ مسلمانوں میں بقول ان کے رائج ’روایتی بیانیے‘پر تنقید کیسے کرسکتے ہیں؟ نظمِ اجتماعی اور فرد کے تعلق کی بات آگئی ہے، تو غامدی صاحب کے مجلے اشراق کے مدیر محمد بلال صاحب کے نام دو عشرے قبل لکھا ایک خط یاد آیا۔ اس خط کا پس منظر یہ ہے کہ بلال صاحب نے اپنے اداریے میں لکھا تھا: ’’دین کے سادہ مطالعہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ ریاستی نظام کی تبدیلی نہیں، بلکہ اخروی کامیابی کا حصول ہے اور اس طرح انسان کا سب سے بڑا دشمن کوئی سیکولرحکمران نہیں بلکہ شیطان ہے۔‘‘اس پر میں نے عرض کیا کہ: ’’اگر پورا ریاستی نظام شیطانی پروگرام پر عمل کر رہا ہو اور کوئی ولی اللہ اخروی کامبابی، جو ’انسان کا اصل مسئلہ‘ ہے، حاصل کرنا چاہے تو کیا اس ریاستی نظام کی تبدیلی کے لیے کوشش کیے بغیر وہ اخروی کامیابی حاصل کر سکتا ہے؟ کیا اخروی کامیابی بغیر اس کوشش کے حاصل ہو سکتی ہے؟یہ بھی تسلیم کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے، مگر کیا سیکولر ازم شیطان کا سب سے بڑا حربہ نہیں ہے؟ کیا سیکولر حکومت شیطان کی ایجنٹ اور بذات خود شیطان نہیں ہوتی؟ کیا دین و دنیا کی تفریق کرنے والا، دین کو پرائیویٹ معاملہ بنانے والا اور اجتماعی امور میں شیطان کی پیروی کرنے والا اور شیطان کا نظام نافذ کرنے والا خود بہت بڑا شیطان نہیں ہے؟ اور کیا اس طرح وہ ’’انسان کا سب سے بڑا دشمن‘‘ نہیں ہے؟‘‘