2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

’’ ملکی حالات کو سنبھالنے کی اشد ضرورت ‘‘

افتخار حسین شاہ
15-10-2024

کسے نہیں معلوم کہ ملک کے حالات کچھ ایسی شکل اختیار کر چکے ہیں کہ اس ملک کا ہر شہری مایوسی کا شکار ہے ۔ سیاسی اور معاشی طور پر حالات زوال پذیر ہیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بااختیار طبقات میں سے کوئی بھی اسے سنبھالنے کو تیار نہیں ۔ابھی ایک دو روز میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے کو ہے۔دوسرے ممالک سے وفود اسلام آباد آنا شروع ہو چکے ہیں لیکن حکومت کو اسلام آباد شہر کی سکیورٹی کی فکر پڑی ہوئی ہے کیونکہ تحریک انصاف جو اس ملک کی بڑی پارٹی ہے نے اپنے ورکرز کو انہی دنوں اسلام آباد پہنچنے کی کال دے رکھی ہے۔سچ پوچھیں تحریک انصاف کا یہ فیصلہ عام شہریوں کو کسی طور کوئی خاص پسند نہیں آیا کیونکہ ایسا کرنے سے اپنے ملک کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا ۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آنے والے غیر ملکی وفود کے ذہنوں میں پاکستان کی کیا شکل اُبھرے گی۔باہر کی دنیا میں کوئی اچھا پیغام قطاً نہیں جائے گا ۔لیکن کیا کیا جائے یہ فیصلہ اس ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کا ہے۔دوسری طرف حکومت نے بھی یہ ٹھان رکھی ہے کہ کسی سیاسی ورکر کو اسلام آباد نہیں جانے دیا جائے گا اور اس کی خاطر تمام بندوبست کیے جا رہے ہیں ۔ سڑکوں پر کنٹینر لگائے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ورکرز کی پکڑ دھکڑ شروع ہو چکی ہے اور اسلام آباد کی طرف جانے والے راستوں کو بند کرنے کے بندوبست کئے جا رہے ہیں۔اس صورت حال سے ہر محب وطن پریشان ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن طریقے سے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اس احتجاج کے نتیجے میں شہری علاقوں میں خلل امن کا احتمال نہ ہو ۔بدقسمتی سے ہماری حکومتیں کسی مخالف یا اپوزیشن جماعت کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ کوئی جلسہ کر سکیں۔ابھی کچھ عرصہ پہلے تحریک انصاف نے لاہور میں جلسہ کرنے کا پلان بنایا ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس اجلاس کے ساتھ کیا کیا گیا۔ایک تو اس جلسہ کو کرنے کے لیے تحریک انصاف کو وہ جگہ دی گئی جو لاہور شہر سے دور ایک کونے میں تھی اور دوسرے جلسہ کا معین وقت ختم ہوتے ہی یعنی چھ بجے جلسہ کی لائٹس بذریعہ پولیس آف کر ادی گئیں۔ جس کے نتیجے میں لوگوں کو منتشر ہوتے وقت خصوصاً بزرگوں کو کافی تکالیف اُٹھانی پڑیں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کو بڑے شہروں خصوصاً لاہور ، فیصل آباد ، ملتان اور اسلام آباد میں کچھ مناسب جگہیںاس قسم کے جلسوں کے لیے مخصوص کر دینی چاہئیں جہاں کوئی بھی سیاسی پارٹی حسب منشاء اور مناسب اوقات میں اپنا جلسہ کر سکے۔اپنا ملک ایک سیاسی اور جمہوری ملک ہے جہاں مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور کی حامل ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے منشور اور مستقبل کے لائحہ عمل سے لوگوں کو آگاہی دے سکیں گی اور لوگوں کو کسی سیاسی پارٹی کے منشور کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی ۔بدقسمتی سے آج تک کسی حکومت نے بھی اس لائحہ عمل کی طرف نہیں سوچا ۔دوسری طرف یہ امر بھی کافی افسوسناک ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کو ہر طور اور ہر زاویہ سے دبانے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں۔ مثلاً اپنے سیاسی مخالفین کو پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں کے ذریعے خاصا زچ کیا جاتا ہے۔یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں وہ آپ کے سامنے ہیں۔آجکل تحریک انصاف کے لیڈران اور اس جماعت کے ورکر اس چیز کو بھگت رہے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس جماعت کے سربراہ بمعہ بیگم اور دوسرے سرکردہ لیڈران جیلوں میں ہیں ۔ اب تو تحریک انصاف کے بانی کی دو بہنیں بھی جیل میں پہنچ چکی ہیں ۔یہ سیاسی چلن کسی طور بھی اپنے ملک کی سیاست کے لیے اچھا نہیں ہے۔ایسی کارروائیوں سے نفرتیں پنپتی ہیں جو نہ تو ملک کی سیاست کے لیے اچھی ہو سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے معاشرے کے لیے ۔آپ دیکھ رہے ہونگے کہ ایسی کارروائیوں سے تحریک انصاف کے لیڈر کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں ۔اس وقت اپنے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں۔ یہ دونوں اس ملک کی بڑی پارٹیاں ہیں اور اپنا اپنا ماضی رکھتی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ عوامی بھلائی کے کاموں پر لگ جائیں تاکہ عوام محسوس کریں کہ ان دونوں پارٹیوں کو صرف اور صرف عوام کی بہتری سے سروکار ہے۔پیپلز پارٹی کے بانی جناب بھٹو ایک عوامی لیڈر تھے اور عوام اُن سے محبت کرتے تھے ۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے اس لیڈر کے لیے جان کی قربانیاں دیں ۔ بلاول بھٹو اُسی خاندان سے ہیں ۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنے نانا کے دئیے گئے منشور سے استفادہ کریں اور غریبوں کو غربت کے چنگل سے نکالنے کی لیے رات دن ایک کر دیں۔کسے نہیں معلوم کہ اس وقت عوام مہنگائی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ۔ بجلی اور سوئی گیس کے بلوں نے لوگوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے ۔ عام آدمی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اس مہنگائی سے کیسے نبرد آزما ہو ۔بلاول بھٹو کے سر پر آج کل کچھ آئینی ترامیم سوار ہیں ، لیکن سچ پوچھیں تو عوام کو ا ن آئینی ترامیم سے کوئی سروکار نہیں۔انھیں چاہیے کہ وہ عوام کے لیے بجلی کی قیمتیںکم کرانے کی سوچیں جن کے لیے انھیں بڑے بڑے خاندانوں کی ملکیتی آئی پی پیز سے عوام کی جان چھڑانی ہو گی۔ عمران خان کی محبت لوگوں کے دلوں میں اس لیے دو چند ہوئی کہ وہ برملا اور زور دار طریقے سے کہتا ہے کہ اس کا سب کچھ پاکستان میں ہے اور پاکستان کے لیے ہے ۔اس کی یہ بات لوگوں کے دل کو لگتی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک سال سے اوپر ہو گیا ہے کہ وہ جیل میں ہے لیکن اس کی یاد لوگوں کے دلوں سے محو نہیں ہوئی۔دنیا کے سامنے ہے کہ اس وقت حکومت مسلم لیگ (ن) کی اور پیپلز پارٹی کی ہے لیکن اُن کے حالات دگرگوں ہیں۔ آخر میں سچ لکھوں کہ موجودہ حالات میں اس ملک کا ہر شہری بہت پریشان ہے اور یہاں سے بھاگنا چاہتا ہے ۔اس کے دل میں کسی کمران کے لیے کوئی محبت نہیں ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کی اس زبوں حالی میں اس ملک کے حکمرانوں کا بڑا کردار ہے۔عوام کے دلوں میں پھر بھی عمران خان کے لیے نرم گوشہ ہے، کہ وہ بھی اُن کی طرح مشکل حالات میں اپنی زندگی گزار رہا ہے ۔موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کو وہ عوام کی اس مہنگائی سے جان چھڑانے کی کوئی سبیل سوچیں ، اسی میں اُن کی بہتری ہے۔انھیں چاہیے کہ بجلی اور سوئی گیس کی قیمتیں کم کریں تاکہ عوام کی زندگیاں آسان ہوں۔