23مارچ: قرار داد پاس کرنے والے
علی احمد ڈھلوں
کل 23مارچ ہے، یقینا یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے ایک قوم بننے کے لیے ملک حاصل کیا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا گیا تھا کہ وہاں ہم آزادی سے رہیں گے، ہم وہاں مذہبی طور پر بھی آزاد ہوں گے، معاشی اور معاشرتی طور پر بھی، مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوگیا۔ نہ ہم مذہبی طور پر آزاد ہوئے، نہ معاشی طور پر اور نہ ہی ہمیں معاشرتی طور پر جینا آیا۔ 23 مارچ 1940ء کا سورج طلوع ہونے سے پہلے 22 مارچ کی رات قائد اعظم محمد علی جناح نے جو تقریر کی تھی اْس کا نچوڑ تھا:’’مسلم امت گرچہ ایک قوم ہے مگر برصغیر میں اسے ایک اقلیت سمجھا جاتا ہے۔‘‘ قائد کی اس تقریر سے چند گھنٹوں قبل معروف شاعر میاں بشیر احمد کی نظم ''ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح‘‘ ترنم کے ساتھ پڑھی گئی اور اس کے بعد سے ہر سال اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پاکستانی عوام کا مزاج شروع سے ہی ایسا بنا دیا گیا کہ اسے نغموں، شاعری، جذباتی نعروں اور ملک میں منائے جانے والے قومی تہواروں کے سحر سے نکلنے اور حقیقی دنیا میں جینے کی عادت ہی نہ پڑے۔ قریب 78 سال کی ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ سیاسی کارکن اور نوجوان اب ملک و قوم کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ پر سوال اْٹھانے کی جرأت کرنے لگے ہیں۔لاکھ نئے قوانین بنانے، مقدمات درج کرنے کے باوجودسوشل میڈیا حکومتی اقدامات کے خلاف بھرا پڑا ہے،،، اب نوجوان سوال کر رہا ہے کہ ملک کو کیوں اس نہج تک پہنچا دیا گیاکہ ہم کشکول لیے دنیا بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں؟ نوجوان سوال کر رہے ہیں کہ اْن کے ووٹ کو ضائع کیوں کیا گیا؟کیوں وقتی طور پر اْس تحریک کو دبا دیا گیا جو خاص طور سے پاکستانی نوجوانوں کے لیے اْمید کی کرن کی مانند تھی؟ کیا قائداعظم یا دیگر رہنماوں نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ کیا ہم نے یا ہماری قیادت نے کبھی غور کیا کہ آزادی کے بعد سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ایک قوم کی حیثیت میں اور قوموں کے اتحاد کے رکن کی حیثیت سے کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم ایک جمہوری اور ترقی پسند پاکستان میں رہ رہے ہیں، ویسا پاکستان جیسا اس کے بانی قائداعظم نے تصور کیا تھا؟ کیا ہم پاکستان کو اندرونی طاقت، سیاسی استحکام، معاشی خود انحصاری، سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کا مرکز بنانے میں کامیاب رہے ہیں؟کیا اس وقت قرارداد پاکستان پیش کرنے والوں کی روحیں تکلیف میں نہیں ہوں گی؟ یہ تکلیف دہ سوالات ہیں،اور ان سوالوں کے جوابات بھی کم تکلیف دہ نہیں ہیں۔کیوں کہ اس میں سبھی قصور وار ہیں،،،کیا سیاستدان، کیا مذہبی رہنما، کیا مقتدرہ، کیا مقننہ، کیا بیوروکریسی سبھی قصور وار ہیں۔ ویسے میں کہتا رہا ہوں کہ آج کی بیوروکریسی سے پرانی بیوروکریسی بہت بہتر تھی ،،، لیکن میری یہ بات بھی آج رد ہوگئی جب رپورٹس کے مطابق پبلک اکاونٹ کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ 1956ء میں اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی ایک سرکاری وفد لے کر چین گئے تھے۔ پاکستان اور چین، دونوں نئے نئے آزاد ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بعد دوستی کے بندھن میں بندھ رہے تھے۔ چین کی حکومت نے اس وفد کی بہت عزت افزائی اور بھرپور میزبانی کی۔ واپسی پر وفد کو بہت قیمتی اور مہنگے تحائف دیے گئے۔ تحائف کو دیکھ کر پاکستان کے سرکاری وفد کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ انہیں یہ خیال ستانے لگا کہ واپس جاکر یہ تحائف توشہ خانے میں جمع کرانے ہوں گے۔ اس پر تمام ممبران کا دل بیٹھ گیا۔ کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ اس کا ایک حل موجود ہے۔ پاکستان واپسی کیلئے ہانگ کانگ میں سٹاپ ہو گا، وہاں سے ان تحائف کی نقل یا کاپی مل جائے گی۔ یوں ہانگ کانگ میں رک کر ان تمام تحائف کی کاپی یا نقول خریدی گئیں اور پاکستان پہنچ کر وہ نقلی تحائف توشہ خانے میں جمع کرا دیے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس بات کا علم وزیراعظم سہروردی کو نہیں تھا کہ وفد کے ارکان نے یہ گھٹیا حرکت کی ہے۔ جونہی کسی افسر نے یہ بات وزیراعظم سہروردی کو بتائی تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک نوٹ فائل پر لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ ان کے وفد کے ارکان نے یہ حرکت کی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا اب یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس وزیراعظم سہروردی کا لکھا ہوا وہ نوٹ موجود ہے اور اس کا انکشاف انہوں نے کمیٹی اجلاس میں کیا۔اب بتائیں انسانی کردار اور ایمانداری کہاں سے ڈھونڈیں؟ کیونکہ یہ تب کا واقعہ ہے جب پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی محض نو برس ہوئے تھے۔ ابھی ان دنوں کی روح باقی تھی کہ اپنا ملک لینا ہے جہاں ہم بہتر زندگیاں گزاریں گے۔ ابھی پاکستان نوزائیدہ ملک تھا اور ملک کو وسائل کی ضرورت تھی لیکن اس سرکاری وفد کے ارکان کو اپنی ''خوشحالی‘‘ کی فکر تھی۔ لہٰذا جونہی موقع ملا انہوں نے سب کچھ ہڑپ لیا۔ الحمد للہ ! آج بھی ہماری بیوروکریسی ایسی ہی ہے،،، اور پھر مقتدرہ نے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا؟ اس کا تعین کرنے لگیں تو آزادی کے بعد سے ہماری تاریخ کی ترتیب خود سب کچھ واضح کر دیتی ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ابتدا ہی سے پاکستان میں سیاست اور حکومتیں ایلیٹ طبقوں کے یرغمال بنی رہی ہیں‘ جو تعلیمی ترقی اور سیاسی آزادی کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے۔ مسلم لیگ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے بعد بھی وہی جاگیردار طبقہ‘ جو مختلف اوقات میں‘ مختلف سیاسی جھنڈوں تلے مختلف افراد پر مشتمل ہوتا تھا‘ فوجی تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر اقتدار میں رہا۔ بہرکیف آج 2025 ء میں جب ہماری پوری کی پوری ٹرینیں ہی اغوا کی جا رہی ہیں،،،جب زبان کی بنیاد پر بسوں سے نکال کر پنجابیوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے، جب ہمارے فوجی جوان شہید کیے جا رہے ہیں ، جب پاکستان کی عدلیہ گزشتہ چند سالوں میں جتنا بڑا مذاق بن کر رہ گئی ،اْس کے بعد اس کی آزادی اور فعالیت تو دور کی بات اس کے بنیادی ڈھانچے پر ہی بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔تو ایسے میں یوم پاکستان کو منانے کے لیے نہ تو نوجوانوں میں وہ جذبہ نظر آ رہا ہے نہ ہی نئی نسل میں وہ ولولہ ہے۔ ان کے اذہان میں ملک اور اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات، روزمرہ زندگی میں درپیش مشکلات اور ان کی اْمنگوں کو کچل دینے والے سیاسی اور معاشرتی حالات، اس پاکستان سے تو کسی طور بھی میل نہیں کھاتے جس کا مطالبہ 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد میں کیا گیا تھا۔ بہرحال پاکستان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس نہج پر چل پڑا اور موجودہ دور میں جن بڑے بڑے چیلنجز سے گزر رہا ہے اْس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 23 مارچ 1940ء ہو یا 14 اگست 1947ء کے بعد قائم ہونے والا جنوبی ایشیا کا یہ ملک اپنے وجود کو باوقار طریقے سے برقرار رکھنے اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کے قابل نہیں رہا۔ اس سب کا ذمہ دار کون؟ضرور بتائیے گا۔