انٹرا پارٹی الیکشن کیس: پی ٹی آئی کی التوا کی درخواست تاخیری حربہ ہے : چیف جسٹس
اسلام آباد( نیوزایجنسیاں)سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کے معاملہ پر نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران وکیل، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، درخواست گزار اور نہ ہی کوئی پی ٹی آئی رہنما پیش ہوا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریمارکس دیئے التواکی درخواست تاخیری حربہ ہے ، ہم میڈیا کی ہیڈلائنز کی اجازت نہیں دیں گے ،نظرثانی دائر کرنے والے درخواست گزار اور وکیل پر واضح کرنا چاہتے ہیں ہم آئندہ ہفتے اسلام آباد میں بینچ کی عدم دستیابی پر کیس کی سماعت 21اکتوبر سوموار کے روز تک ملتوی کررہے ہیں، کوئی مزید التوانہیں دیا جائے گا،ساری دنیا میں پراپیگنڈا ہوگانظرثانی نہیں لگتی، باہر جاکرپرا پیگنڈا کریں عدالت نہ آئیں یہ غیر مناسب بات ہے ، اب وہ صحافتی اصول بھی نہیں رہے ، سچی بات نہیں لکھیں گے ،ہم جواب نہیں دے سکتے ، پہلے سینئر وکیل عدالتوں کادفاع کرتے تھے ، 8فروری کوعام انتخابات تھے ،13جنوری کوہم نے مختصرفیصلہ جاری کیااور25جنوری کوجلدی کرکے ہم نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا ، فوراً انٹراپارٹی انتخابات کرادیتے ،ایک شخص عدالت میں بیٹھا ہے جو ڈھول بجا بجا کرکہہ رہا تھا یہ بلے کے نشان کاکیس ہے ،یہ انٹراپارٹی انتخابات کاکیس ہے نہ کہ انتخابی نشان واپس لینے کا، ڈھولچی پہلے عدالتی فیصلے کو پڑھیں پھر تنقید کریں،نظرثانی میں وکیل تبدیل کرسکتے ہیں یہ درخواست گزارکاحق ہے ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کوعدالت میں ہونا چاہئے تھا۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہم درخواست سننے کے لئے بیٹھے ہیں کوئی پیش نہیں ہوا،یہ کوئی طریقہ نہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل سینیٹر حامد خان کی جانب سے لاہور میں خاندان میں مصروفیت کے باعث التواکی درخواست دائر کی گئی تھی جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا حامد خان لاہور سے پیش ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا ہم ویڈیو کانفرنس سے بھی وکلاء کوسنتے ہیں، 8فروری کوعام انتخابات ہوئے اور 6فروری کو نظرثانی درخواست دائر کی گئی،مطلب پی ٹی آئی اس حکم سے متاثر نہیں،پارٹی کے 8لاکھ 50ہزارارکان ہیں، انتخابات کرادیتے جو مرضی جیتے ، ہم اصول کی بات کرتے ہیں،فیصلے میں قانونی غلطی بتادیں ہم ٹھیک کردیتے ہیں،باہر جاکرپراپیگنڈا کریں عدالت نہ آئیں، کیس میں سات وکیل ہیں کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھاالتواکی درخواست قبول نہیں کرتے ، عدالتی حکم کی کاپی درخواست گزار ، وکیل اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈکوبھجوائی جائے ۔ ادھر سپریم کورٹ میں اراضی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا جلوس نکالو، ڈنڈے مارو، اب یہ حیثیت رہ گئی ہے وکلا کی۔آپ دوسروں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں بھی جھانکیں، مہذب معاشروں میں اختلافِ رائے رکھنے کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے ،انہوں نے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا آپ مجھے بات کرنے دیں، ہم اپنے زمانے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جج بول رہا ہو ہم بیچ میں بولیں، آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور نہیں؟، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو تو توہینِ عدالت کا نوٹس ہوتا ہے ،جس کے خلاف آپ ریلیف چاہتے ہیں ان کو آپ نے درخواست میں فریق بنایا ہی نہیں۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔