2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

تعارف کی پیچیدگیاں

موسیٰ رضا آفندی
14-02-2025

انسانوں کے درمیان رابطے کیسے قائم ہوتے ہیں؟ انسان اور دیگرمخلوقات میںبنیادی فرق ہی رابطوں کا فرق ہے ۔ انسان کے علاوہ دوسری ہرمخلوق باہمی رابطوں سے عاری ہوتی ہے۔ آپس میںرابطوں کاشرف صرف انسان کوحاصل ہے۔ ہر رابطہ کسی نا کسی تعارف کا محتاج ہوتاہے۔ اس تعارف کو آسان اور مفید بنانے کیلئے آدمی کوپیدائش کے فوراً بعد ایک نام دیا جاتاہے ۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ دنیا بھر میں ازل سے یہی طریقہ رائج رہاہے جوآج بھی جاری ہے ۔ ہر آدمی کی پہلی شناخت اُسکانام ہوتاہے ۔آدمی نے اپنی سمجھ اورسہولت کے لئے پھر ہرچیز کو نام دیا جیسے کرسی ، قلم ، میزیا چٹائی وغیر۔کھانے ، پینے ، رہنے سہنے ، چلنے پھرنے اٹھنے ، بیٹھنے ، آگے پیچھے اوراوپر نیچے اور ہر طرف آنے جانے کے لئے جہاں جہاں تعارف اورپہچان کی ضرورت تھی وہاں وہاں نام دیتا گیا تاکہ تعارف مکمل ہو اور پہچان قائم ہوجائے۔پہلا تعارف اگر نام ہے تو دوسرا تعارف بولنا ہے۔ تبھی علی ؑ فرماتے ہیں ’’بولو کہ پہچانے جائو‘‘ نام کے بعد آدمی کی دوسری پہچان گفتگو ہے۔ یعنی گفتار ہے ۔ تیسری چیز جو آدمی کی پہچان کراتی ہے وہ معاملات نبھانے کے لئے ا سکا طریقہ کار ہوتاہے جسے عرف عام میں کردار کہتے ہیں۔گفتاراور کردار دونوں آدمی کی سوچ ، فکر ، عقل ، ارادے اورنیت کے عکاس ہوتے ہیں ۔ گفتار اور کردار نظرآتے ہیں ۔ لیکن ان کے پیچھے سوچ اورذہنی مدوجزر غائب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان باتوں کی سمجھ کے لئے فرما یا گیا ’’اعمال کا دارومدار نیتوںپر ہے‘‘ یہ سب باتیں ملکر ہی آدمی کا تعارف کراتی ہیں۔ آئیے باری باری انکا تجزیہ کرتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے ذکر ہوا آدمی کا سب سے پہلا تعارف اس کا نام ہوتاہے ۔ ہمیں یہ تومعلوم نہیں کہ پتھر کے زمانے کا آدمی بھی ایک دوسرے کا نام رکھتاتھا یا نہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ معلوم تاریخ میںکوئی بھی شخص بے نام نہیں ملتا۔ نام ہی سے آدمیوں کے علاوہ چیزوں کی پہچان بھی ممکن ہوئی ہے۔ نباتات ،جمادات اور حیوانات کی انگنت اقسام اپنے ناموں کی بدولت ہی پہچان جاتی ہیں۔ جن کے انفرادی نام نہیں ہوتے وہ نوعی نام ضرور رکھتے ہیں مثلاً فرشتہ ایک نوعی نام ہے، جن ایک نوعی نام ہے اور چوپایا ایک نوعی نام ہے۔ جس طرح میز کرسی ، مکان ، صحرا ، دریا، سمندر اور معاشرہ نوعی نام ہیں اسی طرح مرتبوں اور مناصب کے عمومی نام ہوتے ہیں جیسے افسر ، ڈاکٹر ، مزدور، کسان، مولوی ، جاگیردار اورنوکر شاہی عمومی نام ہیں۔ ہر شئے اورہرجاندار اپنے نام سے پہچانا جاتاہے ۔ ہرچیز کا تعارف اس کے نام سے شروع ہوتاہے۔ تبھی تو عالمین کے واحد اور لاشریک رب نے مسلمان کو بتایا ہے کہ ہر کام کا آغاز اُس اللہ کے نام سے کرو جو رحمان بھی ہے اور رحیم بھی۔ رب تعالیٰ کے پاک اور مبارک ناموں میں سے جو اس کی ساری صفات کا حامل ہے وہ نام ’اللہ‘ ہے۔ مسلمان کا ایمان اس نام کے ساتھ ساتھ اُس کے بھیجے ہوئے آخری رسولؐ پر ایمان سے جڑاہوا ہے۔ صرف اللہ پر ایمان آدمی کوکفر کی نجاست سے تونجات عطا کردیتاہے لیکن مسلمان صرف اُسی وقت بناتا ہے جب آدمی ’’محمد رسول اللہ‘‘ کی ناصرف زبانی گواہی دے بلکہ دل سے اس کی تصدیق بھی کرے۔ مقا م محمدؐ کی عظمتوںکا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جاسکتاہے کہ اللہ اپنی توحید کے اعلان کے لئے بھی محمدؐ ہی کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ ’’تم کہو ۔وہ اللہ ایک ہے ‘‘۔ اسکے باوجود بھی جو مسلمان بسم اللہ سے اپنے کام کا آغاز نہ کرے اُس سے بڑا نافرمان اور بدبخت اور کون ہوسکتاہے؟۔ کتنی عجیب بات ہے کہ محبت کے اظہار کیلئے کہنا پڑتا ہے I love You جبکہ نفرت بغیر کچھ کہے سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ۔ بس اسٹاپ پر کھڑی ایک لڑکی کو بائیسکل پر پاس سے گذرتے ہوئے ا یک لڑکے نے خوف زدہ کرنے کی حد تک گھو ڑ کے دیکھا۔ جس سے لڑکی گبھرا گئی ۔ ذرا آگے جاکر واپس آیا اور لڑکی سے پوچھا ’’آپ نے مجھے پہچانا؟ ‘‘ لڑکی نے جھلاّ کر جواب دیا ’’نہیں‘‘ لڑکا بڑے اعتماد سے بولا ’’ میں ابھی آپ کے سامنے سے گذرا تھا‘‘ تعارف کا یہ طریقہ بھی طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ نفرت ہر آدمی کی سمجھ میںآجاتی ہے لیکن محبت بہت کم لوگوں کو سمجھ میں آتی ہے ۔ اگر محبت آسانی سے سمجھ میں آتی تو امتوں پرعذاب نازل نا ہوتے۔ علی فرماتے ہیں ’’جوتمہیں خوشی کے موقع پر یاد آئے اس کا مطلب ہے کہ تمہیں اُس سے محبت ہے ۔ جو تمہیں مصیبت کے وقت یاد آئے تو اسکا مطلب ہے کہ اُ سے تم محبت ہے‘‘ نام، گفتار اور کردار کے بعد آد می کا تعارف اس کی طبقاتی درجہ بندی ، رنگ نسل اور ملت ومذہب کے علاوہ اُس کی جہالت اور علم سے ہوتی ہے۔ آدمی کی قدروقیمت کا تعین یہی باتیں کرتی ہیں۔ علی فرماتے ہیں ’’آدمی کی قیمت اُس کا علم متعین کرتاہے ‘‘ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ تعارف کا مطلب تعریف نہیں ہوتا۔ تبھی تو قرآن اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ لوگوں کے درمیان تفریق اللہ نے تعارف کے لئے رکھی ہے نا کہ تعریف کیلئے ۔ کیوں؟ اس لئے کہ تعریف کا مطلب مدح اورستائش ہوتی ہے۔ وہ مدح اور ستائش جو آدمی کی گفتار اور کردار میں اس کی خوبیوں کی بنا پر کی جاتی ہے۔ یعنی آدمی کی اخلاقیات کی بنیاد پر۔ تعریف ان باتوں پر نہیں کی جاتی جن باتوں میں آدمی کا عمل دخل ناہو ۔ مثلاً شکل وصورت ۔ قد کاٹھ ، رنگ نسل خاندان اور قبیلہ وغیرہ اور ناہی آدمی کسی ہنر اور پیشے کی بنا پر تعریف کے قا بل ہوسکتاہے ۔البتہ اپنے ہنر اور پیشے کے اعتبار سے ذاتی مہارتوں اور اخلاقی خوبیوں کی بنا پر کوئی شخص قابل ستائش گردانا جاسکتا ہے۔ فارسی میں کہتے ہیں۔ کَسبِ کمال کُن کہ عزیز جہاں شوی یعنی اپنے پیشے اور ہنر میں کمال پیدا کرو تاکہ جہاں بھر میں عزت وتکریم کے حقدار قرار پائو۔ تعریف اور حمد میںیہی فرق ہے کہ تعریف اللہ کی عطا کردہ خصوصیات اور نعمتوں پر کی جاتی ہے جبکہ حمد ذات باری تعالیٰ کی ان تمام صفات کاملہ پرکی جاتی ہے جن میں ناکوئی شریک ہوتاہے اور ناہی شریک ہوسکتاہے ۔ اسی لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میںہی بتا دیا جاتاہے کہ ’’تمام تعریفیں اُ س کیلئے ہیں جو رب العالمین ہے‘‘ یہ آیت مبارک تعارف اور تعریف کی ساری پیچیدگیوں کو دور کردیتی ہے۔