شام کے بعد کس کی باری!!!
ذوالفقار چوہدری
ہیوگو شاویز نے کہا تھا امریکہ کی حکومت امن نہیں چاہتی۔ یہ جنگ کے ذریعے اپنے استحصال، لوٹ مار، تسلط کے نظام کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اگر امریکہ دنیا میں امن چاہتا ہے تو عراق میں کیا ہوا ہے؟ لبنان میں کیا ہوا؟ فلسطینمیںکیا ہو رہا ہے؟ لاطینی امریکہ اور دنیا میں پچھلے سو سال میں کیا ہوا ہے؟۔ ہیوگو شاویز کی بات کو اس لئے بھی رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کہ دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے بعد دنیا کا سب سے طاقتور ملک بننے کے بعد امریکہ نے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت تسلط کو برقرار رکھنے اور طاقت کا غلط استعمال کرنے، بغاوت اور دراندازی بڑھانے اور جان بوجھ کر جنگیں چھیڑنے کے لیے زیادہ ڈھٹائی سے کام کیا ہے۔امریکہ اپنی طاقت سے کمزور مالک کو زیر کرتا ہے۔ کیا عراق اورافغانستان میں اپنی انا اور تسلط پسندانہ طرز عمل کے ذریعے عالمی برادری کی شدید تنقید اور مخالفت کو بھی طاقت سے دبایا نہیں گیا؟۔ کمزوروں کو دھمکانے، طاقت کے ذریعے دوسروں کے وسائل پر قبضہ کے لئے عالمی امن کو تہس نہسنہیں کیا گیا؟۔ یہ امریکہ کی کمزور ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ہوس نہیں تھی جو مشرق وسطیٰ کے ایک کے بعدا یک ملک پر بارود اور تباہی بن کر برسی؟۔ جمہوریتکے نام پر عراق، یمن، لیبیا کو تباہ کیا گیا۔ ایران خطروں سے دوچار ہے۔ لبنان تباہ حال ہے۔اب شام پر امریکی ایجنڈا مسلط ہو چکا۔ یہ کھیل آخر کس لئے؟ کیا یہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی جمہوریت سے وابستگی ہے یا وسائل ہڑپنے کی سازش؟ شام میں جو گزشتہ ڈیرھ عشرہ خون کی ہولی کھیلی گئی کیا یہ شام کے عوام کی خواہش تھی یا تباہی ان پر تھونپی گئی؟۔سچ یہ ہے کہ یورپ روس کی گیس کا سب سے بڑا خریدار ہے کیونکہ یورپ پاس اسکے علاوہ کوئی آپشن نہیںروس یورپ کو سرد جہنم میں گھکیلنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے اور اپنی قیمت پر گیس فروخت کر تا ہے۔ یورپ روس کی بلیک میلنگ سے تنگ تھا۔اس نے سعودی عرب اور امریکا کی مدد سے قطر سے گیس پائپ لائیں یورپ لانے کا فیصلہ کیا۔یہ منصوبہ روس کے لیے ناقابل قبول تھا۔ روس نے بشار الاسد کو استعمال کیا اوراس نے پائپ لائن شام سے گزارنے سے انکار کر دیا۔ قطر‘ سعودی عرب اور امریکا بشارالاسد سے ناراض ہو گئے اور مل کر2011ء میں داعش اور القاعدہ کی شام میںسرپرستی شروع کر دی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ یورپ اور پوری دنیا کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑ رہا تھا۔ سعودی عرب‘ قطر اور امریکا اور داعش اور القاعدہ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے لیکن جب مفاد کا معاملہ آیا تویہ سب ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ بشارالاسد کو راستے سے ہٹانے کے لئے ابو محمد الجولانی کو شام کی مسلح اپوزیشن تنظیم حیات تحریر الشام کے سربراہ چنا گیا۔یہ وہی الجولانی ہیں جنہوں نے 2003ء میں امریکا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے لئے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ابو محمد الجولانی کو 2006ء میں عراق میں امریکی افواج نے گرفتار کیا اور 5 سال تک قید میں رکھا۔ رہائی کے بعد، الجولانی کو شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم 'النصرہ فرنٹ' قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس نے خاص طور پر ادلب میں مخالف قوتوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنا اثر بڑھایا۔ سعودی عرب اور قطر نے مالی مدد دی اور امریکا نے اسلحہ فراہم کیا۔ 2011ء میں شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ روس اور ایران صدر بشارالاسد کی مدد کو آئے۔اس مدد کی وجہ تھی‘ روس ہر صورت پائپ لائین روکنا چاہتا تھا اور یہ کام بشارالاسد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ شام کی خانہ جنگی دس لاکھ لوگوں کی جان لے گئی جب کہ 70 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔دس سال کی لڑائی کے بعد پائپ لائین کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اورشام میں امن ہو گیا لیکن پھر نومبر 2024 میں اچانک اس میں ایک نیا موڑ آیا اور بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی۔شام میں 2011ء سے چھ بڑے اور خوف ناک ملیشیا کام کر رہے تھے پہلی ملیشیا القاعدہ ہے‘ یہ شروع میں القاعدہ تھی پھر یہ النصرہ فرنٹ بن گئی اور اب یہ حیات التحریر الشام کے نام سے کام کر رہی ہے‘ اسے در پردہ سعودی عرب‘ ترکی اور اسرائیل کی مدد حاصل رہی۔ ابتدائی برسوں میں الجولانی نے ابو بکر البغدادی کے ساتھ کام کیا، جو عراق میں القاعدہ کے اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جو بعد میں داعش کے نام سے جانی جانے لگی۔اپریل 2013ء میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی تنظیم القاعدہ سے تعلق ختم کر رہی ہے اور شام میں پھیل رہی ہے، جس سے النصرہ فرنٹ کو ایک نئی تنظیم داعش میں ضم کر دیا گیا۔تاہم الجولانی نے اس تبدیلی کو مسترد کر دیا اور القاعدہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی ۔سوال تو یہ بھی ہے کہ شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ منصوبہ تو ملک ٹوڑنیکا ہے تاکہ گیس پائپ لائین کے بینی فیشری ایک لمبی پٹی کاٹ کر اس میں اپنی حکومت بناسکیں‘ اس سے پائپ لائین گزاریں گے اور سالانہ اربوں ڈالر کمائیں گے۔ اسی مقصد کے لئے روس کو یوکرائن جنگ میں الجھایا گیا۔ صرف شام ہی نہیں امریکہ چین کے دنیا میں بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنے کئے لئے انڈیا اور تائیوان کو استعمال کر رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے روس کو افغانستان میں گھسیٹ کر پاکستان کو افغانستان میں استعمال کیا گیا۔ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی مگر امریکہ پاکستان کواس کے حال پر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں امریکی حکام افغان جنگ میں پاکستان پر دوغلی پالیسی کا الزام ہی نہیں لگا تے رہے بلکہ بلوچستان اور کے پی کے میں پاکستان مخالف جذبات کی آگ بھڑکا کر بدلہ بھی لے رہے ہیں۔ کے پی کے سے اسلام آباد پر مسلسل یلغار اور حکومت کے ڈی چوک میں گولی چلنے اور ہلاکتوں کا پراپیگنڈا پاکستان میں عدم استحکام کو بغاوت میں بدلنے کا منصوبہ نہیں تو کیا ہے؟۔ فریقین کی ایک دوسرے کو کچلنے کی ضد صرف پاکستان کا اندرونی معاملہ نہیں ہو سکتا مگر کوئی سمجھنے کو تیار نہیںکہ یہ پاکستان کو دوسرا شام بنانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے!!!