محروم طبقات سے رجوع کیوں نہیں
اشرف شریف
قومی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کی حوصلہ افزائی اگر ہماری پسندیدہ جماعت کرے تو یہ غلط معلوم نہیں ہوتا،دوسرے کے لئے ہم کسی بھی سطح پر جا کر عناد و الزام تراشی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔یہ رویہ پتہ نہیں کیسے پروان چڑھا لیکن اب یہ ہماری سیاسی مباحث اور وفاداریوں کا حصہ بن چکا ہے۔نقصان جس فریق کا ہوا یا ہو رہا ہے وہ مملکت پاکستان ہے۔ اس عرض گزاری کا پس منظر آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان آمد اور پاکستان کی گورننس ،عدالتی نظام و مالیاتی ڈھانچے میں موجود خرابیوں سے آگاہی لینا ہے ۔حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو ایک خط اور ڈوزیئر بھیجا ہے جس میں اس نے فروری 2024 کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر انتخابی بے ضابطگی کے ’’ناقابل تردید ثبوت‘‘ پیش کئے ہیں۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ خط اور ڈوزیئر کی کاپی اور عام انتخابات 2024 سے متعلق این جی او پتن کی رپورٹ بھی چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھجوائی گئی تھی۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ، بنیچی کو لکھے گئے اپنے خط میں،عمر ایوب نے 7 جولائی 2023 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کا حوالہ دیا، جس میں پی ٹی آئی کے بانی نے قانون کی حکمرانی کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ "بتایا جاتا ہے کہ ڈوزیئر میں کافی ثبوت موجود ہیں کہ کس طرح ریاستی اداروں بشمول الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو دبایا، زبردستی اس کا عوامی مینڈیٹ چھین لیا اور انتخابی نتائج کی انجینئرنگ کی۔‘‘ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نے اس ڈوزئیر پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف کو جمع کرایا گیا ڈوزیئر پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے، یہ ملک کی معیشت کی بحالی کو سبوتاژ کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔حکمران جماعت کا مزید کہنا ہے کہ یہ اقدام پی ٹی آئی کی اس تاریخی روش سے مطابقت رکھتا ہے جس میں وہ پاکستان کے استحکام کے موقع پر غیر ملکی مداخلت کے ذریعے قومی ترقی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ وطن عزیز میں پر امن انتقال اقتدار کے لئے پارلیمانی جمہوری نظام متعارف کرایا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام کئی چیلنجز کا شکار ہوا۔پارلیمنٹ اور بڑی جماعتیں ان چیلنجز سے نمٹ نہ سکیں جس کی وجہ سے جمہوری گورننس کمزور ہوئی ،اس کی گنجائش سمٹی تو سیاست دان منشور کی بجائے شخصیات کے گرد جمع ہونے لگے ۔ہر حکمران جب اقتدار سے محروم ہوا تو اس نے’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کہنا شروع کردیا ۔پھر اپنی معزولی کو سراسر غیر ملکی مداخلت کہنا شروع کیا۔ماحول ایسا بن گیا ہے کہ غیر ملکی سازش کے بارے میں مشکوک دعویٰ کیا جاتا ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔یہ بات کبھی درست بھی ہوتی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ہر بار پاکستان میں لوگوں کی ایک بھاری اکثریت طویل عرصے سے ایسے دعوؤں پر یقین کر لیتی ہے ۔ تاریخی طور پر، امریکہ نے پاکستان میں ایک خاص قسم کی حکومت کو ترجیح دی ہے اس کی سلامتی اور تزویراتی مفادات کی تکمیل کے لیے معاون ہو۔ اس طرح کی حکومتوں کی عمر امریکہ کے کنکشن کے ساتھ شروع اور ختم ہوتی ہے۔ اس بات کو ماننا شائد ایک غیر مقبول بات ہو کہ پاکستان میں سیاسی حرکیات تقریباً ہمیشہ ہی کافی حد تک خودمختار طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ حکومتوں کے عروج و زوال کا بنیادی محرک ہمیشہ بیرونی نہیں ہوتا۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی معیشت بحال کرنے کے لئے جو محنت کرتے ہیں پی ٹی آئی اسے بگاڑ دیتی ہے۔حکومتی رہنما تو پی ٹی آئی کی حرکیات کو’’ ریاست مخالف ایجنڈے‘‘ کا حصہ بتاتے ہیں کہ وہ مسلسل پاکستان کی معاشی استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس امر سے شائد ہی کوئی لاعلم ہو گا کہ پاکستان کی جمہوریت خالص نہیں، یہاں جغرافیائی چیلنجز نے ہمارے سیاسی نظام کو ایک مخصوص شکل میں تجسیم کیا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ماضی کی کچھ مثالوں کو سامنے رکھ کر پی ٹی آئی جمہوری یا قانونی حل کے بجائے بین الاقوامی اداروں کی مدد کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا بحال ہونا سب سے ضروری ہے ۔حکومت احتجاج کی کال کی تاریخوں کے حوالے سے پی ٹی آئی پر تنقید کرتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ماضی میں بھی پاکستان کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا، بشمول آئی ایم ایف سے متعلق معاملات کو۔ اسی لئے اب پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو ڈوزیئر جمع کرانا پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی ایک اور کوشش قرار دیا جا رہاہے۔یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی اپنی سیاسی مشکلات سے نکلنے کے لئے سر پیر مار رہی ہے،وہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کی قید پی ٹی آئی کے اقتدار میں رکاوٹ ہے ۔ پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط ایک سیاسی چال ہو سکتا ہے لیکن اس کے اثرات صرف قومی سطح پر محیط نہیں رہتے ۔ پاکستان کی معاشی خودمختاری پہلے ہی متاثر ہے ،عالمی ادارے قومی نا اتفاقی کا فائدہ اٹھا کر مستقبل کی شرائط کو کسی اور انداز میں ترتیب دے سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی غلطیاں اس کے ناقدین کو موقع فراہم کر رہی ہیں۔وہ غلطی کرتی ہے اور دوسرے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹر کے باہر احتجاج کرنے سے لے کر سابق وزرائے خزانہ کی لیک شدہ گفتگو تک ایک ریکارڈ موجود ہے۔ پاکستان اس وقت سٹریٹجک شراکت داری، تجارتی معاہدوں اور پالیسی اصلاحات کے ذریعے معاشی بحالی کی تگ و دو کر رہا ہے۔ کوئی ذمہ دار سیاسی جماعت معاشی چیلنجز کو سیاسی فائدے کے لیے ہتھیار نہیں بناتی،نہ قومی بحرانوں سے اپنی سیاست ترتیب دیتی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ نے دہائیوں تک اقتدار کے لیے جنگیں مہارت سے لڑی ہیں اور اس نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے جو اشرافیہ کا اقتدار برقرار رکھتا ہے۔حکومت کو تو ابھی تک نچلے طبقات تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملا ،حیرت ہے کہ پی ٹی آئی بھی محروم طبقات کو گلے لگانے کی بجائے عالمی اداروں سے لپٹ رہی ہے۔