2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

پس چلمن کچھ تو ہے؟

احمد جمال نظامی
18-01-2025

یہ 2021 کے آخر کی بات ہے، ن لیگ کے بیشتر سنئیر رہنماؤں نے دبے دبے انداز میں اور پھر کھلے الفاظ میں کہنا شروع کر دیا تھا کہ نواز شریف کو بار بار کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان واپس آئیں لیکن نواز شریف مان نہیں رہے، یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف جن شرائط پر پاکستان واپس آنا چاہ رہے تھے؛ اس کا انکے سیاسی منشور سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ سیاست کا ایک اپنا ہی مزاج ہوتا ہے لہذا ن لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے یہی تاثر متواتر دیا جاتا رہا کہ نواز شریف پاکستان واپس آنے کیلئے مان نہیں رہے۔ ن لیگی رہنماؤں کے دعوؤں میں ایسا تاثر بھی شامل تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے بغیر نہ تو ملک کے حالات سنبھل سکتے ہیں، نہ ملکی معیشت بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی ملک کو صحیح معنوں میں چلایا جاسکتا ہے۔ نواز شریف پاکستان واپس آنا بھی چاہتے تھے مگر ان کی کچھ ایسی شرائط تھیں؛ جن کا براہ راست تعلق نیب قوانین میں ترامیم اور کنٹرولڈ عدلیہ سے تھا ان پر قائم کیسز، شہباز شریف کے خلاف کیسز، ان کے اہل خانہ پر کیسز کا خاتمہ اور اس طرح کے بہت سارے ایسے نواز شریف کے مطالبات تھے جو وقت آنے پر کھل گئے۔ نواز شریف جب پاکستان کی سرزمین پر اترے، جس طرح ان کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر عدالتی عملے کی طرف سے بائیومیٹرک کروائی گئی، پھر جس طرح لاہور منار پاکستان میں ان کا جلسہ ایک طرح سے سیاسی جلسے سے زیادہ سرکاری جلسہ ثابت ہوا جبکہ ان کا ہیلی کاپٹر جب مینار پاکستان کے قریب گراؤنڈ میں اترا وہاں پر تحریک استحکام پاکستان کے عون چوہدری وغیرہ کی موجودگی نے بہت سارے ایسے سوالات کو نہ صرف جنم دیا بلکہ ایسے تمام سوالات کے خود ہی جواب دے دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف کی سیاست جو ووٹ کو عزت دو' کے نعرے سے ایک مرتبہ پھر انکے حامیوں میں چمکی تھی، وہ اچانک سے دھڑن تختہ ہوگئی۔جب نواز شریف پاکستان آئے، بانی پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی اور پی ٹی آئی کے خلاف شروع ہونے والی تمام کاروائیوں نے پی ٹی آئی کو ایک نیا ایسا سیاسی جنم دیا کہ عوام کی اتنی بڑی مقبولیت اس کے حصے میں آ گئی جو اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک ان پہنچی کہ پی ٹی آئی سے بڑی کوئی بھی پاکستان میں سیاسی جماعت نہیں رہی، حتی کہ وہ ن لیگ جس کی طرف سے یہ تاثر اور دعوے کیے جا رہے تھے کہ نواز شریف یہاں پاکستان لوٹیں گے اور اگلے ہی لمحے ملک کے حالات بہتر ہونے لگ جائیں گے، وہ ن لیگ 2024 ء کے عام انتخابات میں اتنی بری طرح شکست سے دوچار ہوئی کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بھی نہیں بن سکے البتہ ن لیگ کو فارم 45 کی بجائے فارم 47 کی حکومت کا مسلسل طعنہ دیا جانے لگا۔ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ استحکام پاکستان پارٹی جس میں جا کر پی ٹی آئی کے جو رہنما پریس کانفرنس کرتے تھے اور ان کے تمام کیسز معاف ہو جاتے تھے، اس پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین نے بھی انتخابات کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے سیاست کو خیر باد کہہ دیا، ملک بھر سے کئی جماعتوں کے رہنما یہ کہنے لگے اور برملا تسلیم کرنے لگے کہ وہ تو شکست سے دوچار ہو چکے ہیں؛ ناجانے انہیں کیسے کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر اس کی زندہ مثال ہیں، حیرت کی بات یہ بھی رہی کہ اس سارے کھیل کے دوران بانی پی ٹی آئی نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے بلکہ پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا تھا، آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے میں شدید قسم کی دشواریوں کا سامنا تھا ان کے کئی امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کروانے جاتے تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا، کسی سے کاغذات چھین لیے جاتے اور پی ٹی آئی جو کئی درجنوں کے حساب سے عجیب و غریب نشانات پر آزاد امیدواروں کے طور پر میدان میں اتر رہی تھی۔ اس نے ن لیگ کے تمام دعووں کو ہوا میں اڑا کر رکھ دیا، اب ان دنوں پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا بہت زیادہ چرچہ ہے، دونوں کے مابین مذاکرات کی تیسری بیٹھک ہو چکی، پی ٹی آئی نے اپنے تحریری مطالبات بھی پیش کر دیے، جس میں نو مئی اور 26 نومبر کے لیے جوڈیشل کمیشن جبکہ پی ٹی آئی کے تمام انڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حکومت کے لیے مذاکرات اسکی سیاسی موت سے کم نہیں! پی ٹی آئی نے گو کہ تیسری مذاکراتی بیٹھک کے بعد کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ اگر 7 روز میں ہمارے ان دو مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو پھر چوتھی بیٹھک نہیں ہوگی جبکہ حکومت اس تناظر میں بری طرح پی ٹی آئی پر تنقید کر رہی ہے، ایک بات طے ہے: حالیہ سیاسی کھیل میں پس چلمن کچھ نہ کچھ تو چل رہا ہے، کہیں کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے، مثال کے طور پر اے این پی کے ایمل ولی خان نے دعوی کیا کہ علی امین گنڈا پور اور آرمی چیف والی میٹنگ میں پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی موجود تھے اور بڑے اچھے بچے بن کر بیٹھے ہوئے تھے۔ صوبہ کے پی کے' کے وزیر اطلاعات بیرسٹر سیف اللہ نے اس کی تردید کی جبکہ بیرسٹر گوہر نے اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد تصدیق کی کہ ملاقات ہوئی ہے، وہ جو کام کرتے ہیں بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر کرتے ہیں اور ہر عمل کی انہیں رپورٹ دیتے ہیں۔ 2021ء کے آخر کی طرح اب 2025ء کے آغاز میں پی ٹی ئی آئی ن لیگ والے دعوؤں میں مصروف عمل ہے لیکن اصل سوال ہے کہ کیا: بانی پی ٹی آئی جو اب تک کہتے چلے آ رہے ہیں کہ میں ڈیل نہیں کروں گا، اس سارے سیاسی کھیل میں ان کا اگلا قدم کیا ہوتا ہے، یہ پی ٹی آئی کی سیاست اور ملک کے مستقبل کا تعین کرے گا!!!