پنجاب اسمبلی : گرفتاریوں پر اپوزیشن کا شدید احتجاج، ایم پی ایز کی حراست پر افسوس ہے : سپیکر
لاہور(سٹاف رپورٹر، نمائندہ خصوصی سے ) ارکان اسمبلی اور پارٹی کارکنان کی گرفتاری پر اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی کے ایوان میں شدید احتجاج کیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ 58 منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔سپیکر پنجاب اسمبلی کی ہدایت پرجنرل سیکرٹری پنجاب اسمبلی نے چھ پینل آف چیئرپرسن کے ناموں کااعلان کیا، پینل آف چیئر مین میں سمیع اللہ خان ،سید علی حیدر گیلانی، راحیلہ خادم حسین ، غلام رضا ،شازیہ عابد اور حسن ذکاشامل ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی ایوان میں گرما گرمی ہوئی،پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن رکن اسمبلی رانا آفتاب احمد خان پولیس کے رویے پر پھٹ پڑے اور پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ، جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ احتجاج کی آڑ میں جلائو،گھیرائواور سڑکیں بند کرنا بھی مناسب عمل نہیں ، اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی،احتجاج کی آڑ میں تشدد کا راستہ روکنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے ، چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی ۔رکن اسمبلی آشفہ ریاض فتیانہ نے نقطہ اعتراض پر اپنے بیٹے احسن ریاض فتیانہ کی بازیابی کا مطالبہ کیا اورکہا کہ اسے اغوائکیا گیا ہے ، جس پر وزیر قانون ڈاکٹرصہیب بھرت کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں آشفہ ریاض فتیانہ کی پوری مدد کرنے کو تیار ہیں،مجھے امید ہے جلد احسن ریاض فتیانہ گھر واپس آئیں گے ،میرے دروازے تمام ارکان اسمبلی کیلئے کھلے ہیں،اپوزیشن کو دیوار سے لگایاگیا ہمیں دیوار سے چنوایا گیا۔ نقطہ اعتراض پر پی ٹی آئی رکن اسمبلی کرنل ریٹائرڈ شعیب امیر نے ڈی پی او لیہ کو کرپٹ ترین قراردیدیا، اور دعویٰ کیا کہ اگر کہیں تو پیسے دیکر سپیکر پنجاب اسمبلی پر جھوٹا مقدمہ درج کروا سکتا ہوں،جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ ڈی پی او نے زیادتی کی سیاسی ورکر تھے پیٹرول بم نہیں بنا رہے تھے تو پھر اس کو دیکھیں گے ،شعیب میر نے دھمکی آمیز لہجہ میں کہا کہ ہمیں دیوار میں چنوایا جا رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو آپ کو دیوار میں چنوا کر اوپر سے فائرنگ رینج کروا دیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے پی ٹی آئی کے گرفتار ایم پی ایز کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ارکان اسمبلی کی گرفتاری پر افسوس ہے پولیس کو بتا دیا کہ گرفتاری سے پہلے بتانا ہے کیوں گرفتار کررہے ہیں،چار سے پانچ ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کے باوجود رہا کیوں نہ ہوئے ۔ اپوزیشن کی جانب سے ارکان اسمبلی کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ معزز اراکین کی گرفتاری کیسے ہو سکتی ہے اس پر بات کروں گا۔ میں دو راتوں سے سویا نہیں ہوں جو لوگ پکڑے جا رہے ہیں وہ معزز ایوان کے رکن ہیں، ان کی گرفتاری کیوں اور بار بار کیوں ہو رہی ہے اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کروں گا،رولز میں ہے کہ کسی ممبر اسمبلی کی گرفتاری مطلوب ہو تو پہلے سپیکر سے اجازت لینی ہوگی ۔میں موجود نہیں تھا تو اگر کوئی گرفتاری ہوئی ہے تو کیا قائمقام سپیکر سے اس کی اجازت لی گئی؟آج مسئلہ کو حل کرکے ہی جاؤں گا۔ مجتبیٰ شجاع الرحمن کا کہنا تھا کہ سر دس منٹ کا ٹائم دیں تاکہ پتہ چلا لوں کون کون گرفتار ہوا ہے ،جواب آنے پر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کا کہنا تھا کہ ملتان سے کسی پی ٹی آئی کے ایم پی اے کو گرفتار نہیں کیاگیا فلور پر آکر یہ غلط بیانی کرتے ہیں۔مجتبیٰ شجاع الرحمن کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی آتے ہیں اپنی تقریریں کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں،حکومت کا جواب سننا نہیں چاہتے صرف میرے ساتھ چار پانچ اراکین ایوان میں رہ گئے تھے ،کچے کے علاقہ میں بھرپور طریقے سے آپریشن ہو رہا ہے ۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی میں مسودہ قانون صاف پانی اتھارٹی پنجاب کا بل 2024 کثرت رائے سے منظور کر لیاگیا۔ مسودہ قانون صاف پانی اتھارٹی پنجاب کا بل 2024پنجاب کا بل مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیاتھا۔ سپیکر نے اجلاس پیر دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔ دریں اثنا سپیکر ملک محمد احمد خان کی زیرِ صدارت پنجاب اسمبلی کے پرانے سیشن ہال میں ترمیم شدہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے افتتاحی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ترمیم شدہ قواعد و ضوابط کا مقصد اسمبلی کی کارکردگی کو مزید شفاف، جامع، اور جوابدہ بنانا ہے ، جس سے قانون سازی اور نگرانی کی صلاحیتوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اس موقع پر سپیکر ملک محمد احمد خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور قواعد کی تبدیلی سے اسمبلی کو موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید بنانے کی ضرورت ہے ۔ تمام اسمبلیاں معمول کی قانون سازی سے آگے بڑھ کر عوامی اعتماد کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ مزید برآں، اسمبلی کی کارروائیوں کی لائیو سٹریم اور آن لائن ریکارڈنگ بھی دستیاب ہوں گی، تاکہ عوام کو بہتر رسائی فراہم کی جا سکے ۔پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار اراکین کو پنجابی، سرائیکی، میواتی، پوٹھوہاری سمیت دیگر علاقائی زبانوں میں اسمبلی سے خطاب کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں اراکین کی تعداد 11 سے بڑھا کر 15 کر دی گئی ہے ۔