پانی اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت ہے جسکے بغیر حیات کا تصور بھی ناممکن ہے۔ کسی بھی جاندار کی زندگی کو دوام بخشنے کیلئے پانی لازم و ملزوم ہے اب چاہے وہ انسان ہو، حیوان ہو، چرند پرند یا پھر بنجر زمین، سبھی کو پانی چاہیئے۔ جس طرح سوکھے پودے کو پانی حیات نو بخشتا ہے اسی طرح برستے پانی کی چند بوندیں پیاسی زمین کو سیراب کرتی ہیں اور ہرا بھرا کر دیتی ہیں۔ ایک جگہ ٹھہرا ہوا پانی جہاں زندگی کے بے حرکت ہونے کی علامت ہے تو دوسری جانب بہتا ہوا پانی زندگی کو رواں دواں رکھنے کا ضامن ہے۔ لیکن اگر یہی پانی رحمت سے زحمت اور نعمت سے مصیبت میں بدل جائے تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ یہی پانی جب عذاب بنتا ہے تو اپنے ساتھ سب نعمتیں بہا لے جاتا ہے جن کو انسان بہت محنت و مشقت کے بعد حاصل کرتا ہے اور تنکا تنکا کر کے جوڑتا ہے۔ آج کل پاکستان کے بہت سے علاقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مون سون کی حالیہ بارشوں نے جو طول پکڑا ہے وہ شدید سیلاب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں ہونے والی تباہ کن بارشوں نے لوگوں اور انکی املاک کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں جیسے بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں نے نظام زندگی درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے اور لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ابھی تک 900 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، 1200 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے ابھی تک حکومت کی جانب سے محض اعلانات کی حد تک ہی عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔جیسا کہ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے سیلاب کو ایک قدرتی آفت اور المیہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کی ہے۔ سندھ حکومت نے بھی سیلاب زدگان کی مدد شروع کرنے کا " اعلان" کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی نمائندگان کی جانب سے کیے گئے اعلانات پر عمل درآمد کب کیا جائے گا ؟ پاکستانی عوام کی ہمیشہ سے ہی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ جن حکمرانوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں وہی مسیحا مشکل کی گھڑی میں دور تلک دکھائی نہیں دیتے۔ کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کیلئے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں اوراس بار بھی یہی ہوا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے ملحقہ علاقوں کے لوگ خود آگے بڑھ کر ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پہ آنے والے جان لیوا مناظر نے حساس دل رکھنے والوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ حکومت کا انتظار کیے بغیر خود سے ان مصیبت زدہ لوگوں کیلئے کچھ کریں۔ این ڈی ایم اے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کے 116 اضلاع میں جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور پانچ لاکھ سے زائد مکانات تباہ ہوئے ہیں اور دیہی علاقوں میں کم و بیش چھ سے سات لاکھ مویشی سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں۔ تمام صوبوں میں بلوچستان سب سے ذیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 34 اضلاع اور ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں بھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جہاں 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے اور 22 لاکھ افراد شدید بے کسی کے عالم میں مدد کے منتظر ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پچاس ہزار لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 33 اضلاع کو سیلاب کی تباہ کاریاں سہنی پڑی ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے 16 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ سے زائد آبادی متاثرین میں شامل ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے 26 اگست تک ملک کے بیشتر علاقوں میں بارش کے سلسلے جاری رہنے کی پیشنگوئی کی ہے جو سیلاب زدگان کی پریشانی میں اضافے کا باعث ہے۔ تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صاحب اقتدار طبقے کو واقعی لوگوں کی مصیبت اور اذیت کا اندازہ ہے؟ حکومت وقت کیا واقعی سنجیدگی سے ان سیلاب متاثرین کی مدد کرنا چاہتی ہے ؟ اور کیا میڈیا سیلاب زدگان کی حالت زار کو صحیح معنوں میں اجاگر کرنے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں؟ جہاں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں دن رات ایک کر رہی ہیں تو وہیں میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز سیاست کو زیادہ وقت دے رہے ہیں یا عوامی مسائل کو ؟ میری نظر میں دونوں جانب اس درجہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا جسکی اصل میں ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی سیلاب زدگان کی ہولناک تصاویر جن میں سیلاب میں بہتے مال مویشی، بوڑھے بزرگان اور بچے، بے یارو مددگار عورتیں اور پانی و کیچڑ میں دھنسی لاشوں نے دل پاش پاش کردیے وہیں دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا پہ 90 فیصد وقت سیاسی خبروں کو دیا جارہا تھا جن میں عمران خان کے سیاسی جلسے، شہباز گل کی گرفتاری اور جیل کے حالات، ن لیگ کے جوابی وار، ایک دوسرے پہ الزام تراشیوں کی سرخیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام کی حقیقتاً کسی کو پرواہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور حکومتی حلقوں میں کچھ جنبش ہوئی ہے۔ پاکستان میں زلزلہ آئے یا سیلاب یا کوئی اور ناگہانی آفت ، صاحب اقتدار طبقے نے ہمیشہ عوام کو مایوس ہی کیا ہے۔ عوام نے ہی ایک عام کا دکھ سمجھتے ہوئے ہمشہ مدد میں پہل کی ہے نیز مختلف تنظیموں کیساتھ ساتھ مخیر حضرات مل جل کر مصیبت زدگان کی مدد کرتے ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ابھی دنیا میں درد دل رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ البتہ بیرونی ممالک کی جانب سے پچاس کروڑ ڈالر کی مالی مدد کے اعلانات کیے گئے ہیں اور یورپی یونین نے سیلاب زدگان کے لیے 3 لاکھ پچاس ہزار یورو کی پیشکش کی ہے۔ نیز پاک فوج نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداری کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے اور مختلف مقامات پرعطیہ مراکز قائم کر دیے ہیں۔ اسکے برعکس بلند و بانگ دعوے کر کے ووٹ حاصل کرنے والے حکمران جب تک عوام کی مدد کو پہنچتے ہیں تب تک سب کچھ ملیامیٹ ہوچکا ہوتا ہے۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ : اب مجھے تیرنا کیا سکھاؤ گے اب تو سر سے گزر گیا پانی