ایک دو بار حرمین شریفین کی زیارت سے مشتاقانِ دید کی تشنگی کہاں دور ہوتی ہے تبھی تو مدینہ سے بادیدہ تر رخصت ہوتے ہوئے ہر حاجی اور ہر زائر پکار اٹھتا ہے: مجھے پھر در پہ بلانا مدنی مدینے والے مگر یہاں بیچارے ہزاروں پاکستانی عازمین حج کی پہلی حاضری‘ بھی اخراجات میں اضافے کی بنا پر غیر یقینی ہو گئی ہے۔ یہ عجیب روح پرور سفر ہے جس کی لگن ہر شاہ و گدا کو ہوتی ہے۔ غریب ہو یا امیر‘ عالم ہو یا عامی‘ شہری ہو یا دیہاتی‘ جوان ہو یا بوڑھا اور عربی ہو یا عجمی جس کے دل میں ایمان کا شعلہ جگمگا اٹھا پھر اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اسے حج کی سعادت اور شہر نبی ﷺ مدینہ منور کی حاضری نصیب ہو۔یہ کوئی آج کی بات نہیں صدیوں سے یہ سفر شوق اسی طرح جاری و ساری ہے۔ سینکڑوں برس پہلے لوگ بحروبر کے ذریعے تھوڑا سا زادِ راہ لے کر حجاز مقدس کی طرف چل پڑتے تھے اور پھر کبھی نہ کبھی وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔ ایسی بھی تاریخ میں ہزاروں مثالیں بھری پڑی ہیں کہ جب دولت اسلامیہ کی سرحدیں کھلی ہوتی تھیں تو جنہیں کوئی اور سواری میسر نہ ہوتی تو وہ شوق کی سواری کے سہارے ہزاروں میل کی دوری سے پیدل چل پڑتے اور پھر یوں ہوتا کہ سولہ سترہ برس کا جوان رعنا جب مکتہ المکرمہ پہنچا تو وہ ستر بہتر برس کا بوڑھا ہو چکا ہوتا۔ آج سے تقریباً ساڑھے سات سو برس قبل جب ابن بطوطہ اٹھائیس سال سیرو سفر میں گزار کر مراکش کے شہر طنجہ پہنچا تو عجائبات عالم کا احوال سننے کو اس کے گرد شہر بھر کے نوجوان اکٹھے ہو گئے۔ اب بطوطہ نے مزے لے لے کر انہیں عجائبات دنیا کا حال سنایا۔ لوگ ہمہ تن گوش ابن بطوطہ کی سحر انگیز گفتگو سن رہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان بول اٹھا ’’حاجی! آپ نے ساری دنیا کا سفر کیا ہے ہمیں بتائیں کہ دنیا کا سب سے عظیم شہر کون سا ہے؟‘‘ابن بطوطہ نے بلا تردد اور بلا توقف جواب۔’’مکتہ المکرمہ‘‘ ۔ یہی کیفیت آج تک چل رہی ہے۔ آج بھی دنیا کے کونے کونے سے مسلم و غیر مسلم ممالک سے فرزندان توحید کشاں کشاں مکتہ المکرمہ کی طرف یوں کھینچے چلے آتے ہیں جیسے مقناطیس کی طرف سکہ کھینچا چلا آتا ہے۔ حج اور عمرے کے لئے ارض مقدس جانے والے سب زائرین کا طبقہ امراء سے تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان کے تقریباً دو لاکھ حجاج میں سے کم از کم آدھے ایسے ہوتے ہیں جو جوانی سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز تک پائی پائی جمع کرتے ہیں اور آج جب درخواست دینے کا وقت آیا ہے تو انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ گھر بیٹھے بٹھائے ان کی آدھی سے زیادہ جمع پونجی لٹ چکی ہے ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ روپے کی قدر میں بڑی کمی آ گئی ہے اور ڈالر پر لگا کر اوپر کی طرف اڑ گیا ہے۔ ثقہ اخباری رپورٹوں کے مطابق سرکاری حج کے اخراجات میں 63فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس فی حاجی اخراجات دو لاکھ 80ہزار روپے تھے اب یہ اخراجات 4لاکھ 56ہزار 426روپے بشمول قربانی اب یہ ایک لاکھ 76ہزار 426روپے ادا کرنا ہوں گے۔ بلکہ اس پر ہی بس نہیں ہر حاجی کو 2ہزار ریال ساتھ لے جانے کی تاکید بھی کی گئی ہے جو 78000روپے بنتے ہیں اور یوں اس برس حج پیکیج 5لاکھ 30ہزار روپے تک پہنچ جائے گا۔ کئی برس سے حکومت پاکستان سرکاری سکیم کے تحت جانے والے حجاج کو 45ہزارروپے بطور سبسڈی دے رہی تھی۔ اب حکومت نے وزیر حج پیر نور الحق قادری کی پر زور درخواست کو مسترد کرتے ہوئے یہ سابقہ سبسڈی بھی واپس لے لی ہے اور اس پر وزیر اعظم یا کسی اور وزیر نے نہ کسی تاسف کا اظہار کیا نہ کسی معذرت کا اور نہ یہ ان ہزاروں عازمین حجاج کے ساتھ کسی طرح کا کوئی زبانی کلامی اظہار یکجہتی یا اظہار ہمدردی کیا ہے۔ وزیر حج پیر نور الحق قادری نے بطور احتجاج حج پالیسی کا اعلان پریس کانفرنس نہیں کیا۔ وہ عام لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور وہ اچھی طرح اندازہ لگا رہے ہیں کہ حج کے اخراجات میں ہوش ربا اضافے سے جو مسافران حرم سفر شوق سے محروم رہ جائیں گے ان کے کیا جذبات ہوں گے۔ ’’ریاست مدینہ کی روشنی میں آج کی جدید اسلامی مملکت کیسی ہونی چاہیے؟‘‘ یہ سوال حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھا ہے۔ اسی اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کو بتایا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر حاجی کو سبسڈی دے سکتی ہے۔ البتہ زکوٰۃ فنڈ سے سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے لئے ایک آسان راستہ بھی تجویز کر دیا ہے کہ حکومت پی آئی اے کے کرایوں میں خاصر خواہ کمی کر دے مگر برسوں سے یہ طرفہ تماشا بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جاری ہے کہ عام دنوں میں پاکستان کے مختلف شہروں سے جدہ تک 60سے 70ہزار روپے کا جو ٹکٹ آتا ہے وہ حجاج کرام کے لئے تقریباً ایک لاکھ کا ہو جاتا ہے جبکہ اس برس تبدیلی کی برکت سے یہ ٹکٹ ایک لاکھ بیس بلکہ ایک لاکھ تیس ہزار تک چلا جائے گا۔ یہاں یہ بات قارئین کے لئے باعث حیرت ہو گی کہ پڑوسی ملک انڈیا کی غیر مسلم حکومت ایئر لائن کے کرائے میں ہر حاجی کو اچھی خاصی سبسڈی دیتی ہے۔اب جو عازم حرمین شریفین ان ملکوتی کلمات کی لذت سے محروم رہ گیا تو اس کی کیا کیفیت ہو گی۔ جناب عمران خان گھر کی موجودہ روحانی فضا سے بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ دعائے نیم بستی میں کیا کیا آہ وزاری کی جاتی ہے۔اس لئے سچے مشتاقان دید جنہیں حج کے اخراجات میں ناقابل یقین اضافے سے جو پریشانی لاحق ہو گی وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب سے کیا کیا راز و نیاز کریں گے اور کیا کیا دعائیں گے۔یہ ان کے بعد ان کے رب کا معاملہ ہے اور اسی رب دو جہاں کا قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے کہ اللہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں اس کا گماں بھی نہیں جاتا۔ یہ تو اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے البتہ ہم وزیر اعظم عمران خان کو توجہ دلائیں گے کہ وہ حج کے اخراجات میں کم و بیش دو لاکھ کے اضافے میں سے آدھا بوجھ ریاست پر ڈالیں اور آدھا عازمین حج پر۔ ان کا یہ اقدام اسلامی ریاست کے لئے باعث خیرو برکت ہو گا کیونکہ اس سبسڈی سے جو عازمین بہرہ ور ہوں گے وہ حرمین شریفین پہنچ کر پاکستان اور اس کے حکمران کے لئے یقینا دعائیں گے۔ 1980ء کی دہائی میں سعودی ریال تین ساڑھے تین روپے کا تھا۔ جو اب بڑھتے بڑھتے 39روپے کا ہو گیا ہے۔ ہر کام پاکستان میں ’’پہلی مرتبہ‘‘ کرنے والی حکومت کو الزام تراشی سے ہٹ کر خالصتاً معاشی نقطہ نظر سے اپنے انحطاط اقتصادی انحطاط کا جائزہ لے ۔ اس جائزے سے معلوم ہو گا کہ معیشت کو اوپر اٹھانے والے وہ کیا کام تھے جو ضروری تھے مگر ہم نہیں کر سکے۔ بہرحال یہ عرصہ طویل کی منصوبہ بندی ہے۔ سردست حکومت سبسڈی نہ دینے والے فیصلے پر نظرثانی کرے اور کم از کم ایک لاکھ فی حاجی سبسڈی دے کر مسافرانِ حرمین شریفین کی دعائیں لے۔