یوں تو لاقانونیت کے حساب سے سندھ پورا ہی اپنی مثال آپ ہے لیکن اگر ملک کے بڑے شہروں کا تقابل کیا جائے تو اس کے سب سے بڑے شہر کراچی کا حال اور بھی افسوسناک ہے۔ ہونے کو تو لاقانونیت کے ضمن میں یہاں بہت کچھ ہوتا ہے مگر جو حیران کن منظر آج کے کالم کا باعث بنا اس کا تعلق تعمیراتی شعبے سے ہے۔ اسے یہاں کی معمول کی کارروائی سمجھ لیجئے کہ اگر شہر کے مضافاتی علاقوں میں کوئی شخص اپنے مکان کی تعمیر شروع کرنے لگے تو لازم ہے کہ متعلقہ تھانے جا کر لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی ادائیگی کر آئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس کے زیر تعمیر پلاٹ سے کسی بھی الزام میں مزدور گرفتار کئے جاسکتے ہیں، چوری کا مال برآمد ہوسکتا ہے، راتوں رات سیمنٹ، سریا غائب ہوسکتا ہے، حتی کہ دہشت گردوں کا مدفون اسلحہ بھی دریافت ہوسکتا ہے۔ ان تمام تکالیف سے نجات کی گارنٹی لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپوں کی ادائیگی میں ہی ہے۔ اندرون شہر کی صورتحال قدرے بہتر ہے مگر مکمل نجات یہاں بھی نہیں ہے۔ جب ریتی بجری یا سریا پلاٹ پر پہنچتا ہے تو یہ ڈالا گلی میں ہی جاتا ہے۔ ادھر ٹرک یا ڈمپر مال اتار کر رخصت ہوتا ہے اور ادھر پولیس موبائل پہنچ جاتی ہے۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھے ’’صاب‘‘ پلاٹ مالک کو طلب کرکے پوچھتے ہیں ’’یہ مال گلی میں کیوں ڈالا ہے ؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ اس سے شہریوں کو تکلیف ہوگی ؟‘‘ اگر آپ کو لگتا ہے کہ سندھ پولیس کی یہ موبائل شہریوں کو تکلیف سے نجات دلانے آتی ہے تو آپ سے بڑا احمق کوئی نہیں۔ اب یہ پلاٹ مالک پر ہے کہ ہزار سے لے کر دس ہزار تک جتنے میں اس کا داؤ چل جائے شہریوں کو ستانے کا غیر تحریری پرمٹ صاب سے کھڑے کھلوتے حاصل کر لے۔ لیکن اس خوش فہمی میں نہ رہئے کہ معاملہ یکبارگی نمٹ چکا۔ ’’صاب‘‘ ایک بار پھر آئیں گے۔ اگلی بار یہ عین اس وقت تشریف لائیں گے جب چھت ڈل رہی ہوگی۔ اس روز پلاٹ مالک انہیں دیکھ کر کر کہے گا ’’صاب ! آپ بھول گئے کیا ؟ دے تو دئے تھے میں نے آپ کو‘‘ تو صاب فرمائیں گے ’’وہ تو ریتی بجری اور سریا رکھنے کی ڈیل ہوئی تھی، آپ تو کنکریٹ بنانے اور چڑھانے والی مشینیں لا کر شہریوں کو اس کے شور سے تنگ کر رہے ہیں۔ بھئی آپ کو اس کی اجازت تو نہیں دی تھی۔‘‘ یوں ایک بار پھر پلاٹ مالک کو شہریوں کو ستانے کی اجازت خریدنی پڑے گی۔ اور اس بار بھی یہ ان کی بارگیننگ صلاحیت پر منحصر ہے کہ ڈیل کتنے میں ڈن کرتے ہیں۔ مگر آج کی ڈیل کا سب سے حیران کن موقع وہ ہوگا جب شہری اور صاب کے بیچ ریٹ فائنل ہوجائے گا۔ صاب نوٹ سنبھالتے ہی گویا ہوں گے ’’اچھا ! اپنی خوشی میں شریک نہیں کروگے ؟‘‘ پولیس والے کا کسی کی خوشی میں شریک ہونے کا اس کے سوا کوئی مطلب ہو ہی نہیں سکتا ’’صاحب خوشی‘‘ کی خوشیوں کو آگ لگنے والی ہے۔ چنانچہ ہوتا بھی یہ ہے کہ صاب کا خوشی میں شرکت والا ارشاد سن کر پلاٹ مالک کے چہرے پر بارہ بج جاتے ہیں۔ اور وہ بڑے اداس لہجے میں پوچھتا ہے ’’اب کیا ہوا صاب ؟‘‘ ’’اب اتنے بھی بھولے مت بنو ! آج چھت ڈلنے کی خوشی میں دوستوں کو مٹھائی کھلاؤگے کہ نہیں ؟‘‘ ’’جی کھلاؤں گا صاب !‘‘ ’’تو ہم تمہارے دشمن ہیں کیا ؟ ہم بھی تو دوست ہی ہیں، ہمیں بھی کھلاؤ نا ؟‘‘ ’’اچھا ٹھرئے ! ابھی لایا صاب !‘‘ ’’رکو ! جا کہاں رہے ہو ؟ یہ پیچھے تین سپاہی بیٹھے ہیں انہیں پانچ پانچ سو دیدو ، مٹھائی یہ خود خرید لیں گے‘‘ یہ اس شہر کا عام معمول ہے جس سے خلاصی کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ خود پولیس افسر ہوں یا حکمران جماعت سے آپ کا قریبی تعلق ہو۔ مگر اس شہر میں کل میں نے ایک خوشگوار منظر دیکھا۔ ناظم آباد میں واقع عثمانیہ مسجد کے ایک حصے کی چھت ڈل رہی تھی۔ میں قریب ہی کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک پولیس کی پٹرول موبائل پہنچ گئی۔ تھوڑی دیر کو رکی، صاب نے مسجد کو دیکھا، مزدوروں پر نظر ڈالی اور کچھ سوچتے ہوئے ڈرائیونگ کرنے والے سپاہی سے کہا ’’چلو !‘‘ موبائل کچھ لئے بغیر چلی گئی، جس کا مطلب میں نے یہی لیا کہ سندھ پولیس کے دل میں کہیں نہ کہیں خوف خدا بھی پایا جاتا ہے جس کے ہوتے اس کے اہلکار مسجد کو بخش دیا کرتے ہیں۔ لیکن ! لیکن چند ہی منٹ میں ایک اور موبائل آگئی۔ اس بار آنے والی موبائل پر تھانے کا نام بھی درج تھا۔ اس بار صاب سیٹ پر بیٹھے رہے اور نہ ہی بیٹھے بیٹھے کسی کو اشارے سے پاس بلایا، بلکہ صاب نیچے اترے۔ اپنی جیب سے بٹوا اور بٹوے سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور قریب کھڑے میرے بھتیجے سلمان کو پکڑاتے ہوئے کہا ’’یہ مزدور اللہ کے گھر کی خدمت کر رہے ہیں، انہیں ہماری طرف سے چائے پلا دو !‘‘ نوٹ پکڑاتے ہی موبائل یہ جا اور وہ جا ! یہ میرے لئے ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین منظر تھا۔ میں اس کے لطیف احساس کا لطف لے رہا تھا کہ میرے کان میں شیطان نے سرگوشی کرتے ہوئے اس’’ فتوے‘‘ کا مشورہ دیا کہ ان کی نیکی کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ یہ پانچ سو بھی انہوں نے کسی شہری سے ہی لوٹے ہوں گے۔ مگر میرے دل نے اس سرگوشی کو قبول نہیں کیا۔ دل نے کہا۔ نیکی چاہے ایک ہی کیوں نہ ہو اس کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ ہمارا اللہ بھی عمر بھر کے گنہگاروں کو محض کسی ایک نیکی پر بخش دیتا ہے۔ کسی کی نیکی کو حقارت کی نظر سے دیکھنا بجائے خود ایک بدبختی ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہوجائے اور ہو وہ داڑھی والا تو کہا جاتا ہے’’ اپنی ڈاڑھی دیکھو اور حرکتیں دیکھو !‘‘ کسی کا گناہ کرنا واقعی غلط ہے مگر اس کی نیکی کو اس کے لئے طعنہ بنانے کی کیا تک ؟کیا اگلے گناہوں کے لئے وہ داڑھی منڈھوا کر یہ ایک نیکی بھی ترک کردے ؟