معروف سرائیکی شاعر ، ادیب ودانشورپروفیسر شمیم عارف قریشی کی وفات کو دو سال بیت گئے، وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان سے ملاقاتیں کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہیں ، ان سے جتنی بھی ملاقاتیں رہیں ، وہ سب اب تک یاداشت میں محفوظ ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے جنازہ پر جتنے بھی لوگ تھے ، سب کی آنکھوں میں آنسو تھے ، اور سارے کہہ رہے تھے کہ شمیم عارف قریشی ہمارے اپنے تھے ۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، وہ ملتان کی جیتی جاگتی تاریخ تھے۔ ان کی سب سے دوستی تھی ، دشمنی کسی سے نہیں تھی۔ وہ روٹھوں کو منانے والے اور روتوں کو ہنسانے والے تھے مگر وہ خود روٹھ کر سب کو رُلا گئے ۔ مجھے جلدی بیماری برص نے لپیٹ میں لے لیا ، اچھے اچھے ڈاکٹروں سے دوائیاں لیں ، مگر افاقہ نہ ہوا، بہت پریشان ہوا ۔ ایک روز معروف سرائیکی ادیب عبداللطیف بھٹی تشریف لائے اور آتے ہی کہا کہ ’’ شمیم عارف قریشی صاحب نے ایک حکیم سے جلدی بیماری برص کی دوا لی ہے ،ان کو افاقہ ہے ، قریشی صاحب کہہ رہے تھے کہ دھریجہ صاحب کیلئے بھی دوائی لینی ہے ۔ ‘‘ کچھ دیر بعد معروف رائٹر رانا محبوب اختر ، رفعت عباس اور جواں سال ادیب محمود مہے تشریف لائے انہوں نے لطیف بھٹی صاحب والی بات دہرائی اور کہا کہ میں ایک دو دن میں جھوک جاؤں گا ، لیکن زندگی نے ان کو مہلت ہی نہ دی ۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی انتظامی عہدوں سے کوسوں دور بھاگتے ۔ ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کو ڈائریکٹر کالجز لگایا گیا اور ایک مرتبہ ولائت حسین اسلامیہ کالج کے پرنسپل بھی بنے ۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ ولایت حسین اسلامیہ کالج کی سینکڑوں کنال اراضی جو لینڈ مافیا کے قبضے میں تھی کو چھڑوا کر کالج کا حصہ بنایا ۔ اراضی کی واگزاری میں لینڈ مافیا کی طرف سے انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں تک ملیں لیکن انہوں نے پرواہ نہ کی ۔ اعلیٰ عہدوں پر سرفراز رہنے کے باوجود انہوں نے کبھی درویشی نہ چھوڑی اور ان کے دروازے ہمیشہ عام آدمی کے لئے کھلے رہے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت خلق کیلئے وقف کی اور جتنا ہو سکا مخلوقِ خدا کو فائدہ دیا ۔ آج تک ان کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ جنازے پر ہر آنکھ اشکبار نظر آئی اور آج جس سے بات کریں وہ کہتا ہے کہ وہ میرے سب سے زیادہ مہربان تھے ۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی انگریزی کے استاد تھے ۔ مگر انہوں نے اردو اور سرائیکی میں بہت کام کیا ۔ 2008ء میں جھوک پبلشرز کی طرف سے ان کا سرائیکی شعری مجموعہ ’’ نیل کتھا ‘‘ شائع ہوا تو میں دھوم مچ گئی ۔ پروفیسر رفعت عباس نے نیل کتھا کے بارے میں لکھا کہ ’’ شمیم عارف قریشی ہمارے وسیب کے قدیم ملتان کا وہ سپوت ہے جس نے ملتان کے مزاروں اور بازاروں کے ساتھ ملتان کے شہر کی گلی گلی ، کوچے کوچے میں اپنے رب کے جلوے دیکھے ہیں ۔ ‘‘ شمیم عارف قریشی اپنی سرائیکی شعری مجموعے نیل کتھا کے بارے میں خود لکھتے ہیں ’’ اندھی رات عذاباں والی ویسی اَنت ویہا، پڑھ بسم اللہ گھولیم سر کوں ، کیتم نیل کتھا ۔‘‘ پروفیسر شمیم عارف قریشی کو نیلے رنگ سے بہت پیار تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ آسمان کے علاوہ زمین کا نام بھی گگن ہے اور دونوں کا بنیادی رنگ نیلا ہے ، اس لئے جب ہم نے 6 مارچ 2014ء کو سرائیکی اجرک متعارف کرائی اور سرائیکی اجرک فیسٹیول منعقد کیا تو اس میں سب سے اہم خطاب پروفیسر شمیم عارف قریشی کا تھا ، موصوف نے سرائیکی اجرک کے بارے میں ابتدائی مضامین انہوں نے لکھے جو قومی اخبارات میں شائع ہوئے ۔ ان کی دوسری کتاب ’’ حرف زمیں زاد ‘‘ سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ڈائریکٹر محترم ڈاکٹر ممتاز کلیانی نے چھپوائی ، جس میں ان کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے ۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی کو شاعری ورثے میں ملی ۔ ان کے والد پیر غلام محمد قریشی خاکستر بکھری اپنے وقت کے بہت بڑے شاعر تھے ۔ ان کا کلام سرائیکی ‘فارسی اور اردو میں موجود ہے ۔ انہوں نے اپنی کتاب کا انتساب بھی اپنے والد کے نام کیا ہے ۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی صرف شاعر نہیں تھے وہ بہت بڑے دانشور بھی تھے اور سیاسی رہنما بھی ۔ انہوں نے اپنی اوائل عمری میں سرائیکی لوک سانجھ کے ممبر بنے اور وہ ادبی ، ثقافتی تنظیم سویل کے سربراہ ہوئے ۔ سرائیکی وسیب کے حقوق کے حوالے سے جہاں بھی تقریب یا جلسہ ہوا ، وہ اس میں شریک ہوئے اور سرکاری ملازمت کی پرواہ کئے بغیر بھرپور خطاب کیا ۔ ان کا تھیسز یہ تھا کہ موجودہ پاکستان جسے ہم وادی سندھ بھی کہتے ہیں کی اصل سرائیکی ہے۔ موجودہ پاکستان کی جتنی زبانیں ہیں یا تو سرائیکی کے وجود سے پیدا ہوئیں یا پھر ان کے لہجے ہیں ۔ البتہ پشتو اور بلوچی فارسی خاندان کی زبانیں ہیں ، یہ باہر سے آئی ہیں ۔ انہوں نے اپنے تھیسز میں یہ بھی کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ سندھی سرائیکی سسٹر لینگویج ہیں ۔ وہ کہتے تھے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی ماں اور سندھی بیٹی ہے ۔ ملتان ایک ایسے شخص سے محروم ہو گیا جو ملتان کی تاریخ کا شناور تھا ، جو ملتان کے مزارات، تاریخی عمارتوں ، ان کے در و دیوار سے محبت کرتا تھا ، وہ ملتان کی ایک ایک چیز کو زیارت اور دیدار قرار دیتا تھا ۔ شمیم عارف قریشی اور رفعت عباس نے ملتان کی زیارت کیلئے ہفتہ وار خمیس یاترا کا اہتمام کیا ۔ ہر جمعرات کی شام خمیس یاترا کے لوگ ملتان کی زیارت کیلئے نکلتے ۔ مختلف علاقوںکا چکر لگاتے اور یاترا کے اختتام پر تقریب کا اہتمام کیا جاتا ۔ جہاں زیارت کئے گئے علاقوں کا تعارف کرایا جاتا ۔ خمیس یاترا میں پروفیسر شمیم عارف قریشی کا خطاب نہایت ہی علمی اور معلوماتی ہوتا ۔ خمیس یاترا کے نام سے کتاب بھی شائع ہوئی ہے ، جسے سرائیکی کے معروف نثر نگار باسط بھٹی نے مرتب کیا ہے ۔ کتاب میں جگہ جگہ پروفیسر شمیم عارف قریشی کی یادیں بکھری پڑی ہیں ۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی کی وفات سے ادب کی دنیا میں ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو برسوں تک پُر نہ ہو سکے گا۔ پروفیسر شمیم عارف قریشی ہمیشہ زندہ رہیں گے اپنی شاعری اور اپنی بہترین یادوں کے ذریعے ۔ بابا بلھے شاہ سئیں نے درست فرمایا ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور‘‘ ۔