کسی گھر میں شادی کے شادیانے بجیں، تو سب سے زیادہ انتظار دلہن کا رہتا ہے۔ تقریبا پورا محلہ نئی نویلی دلہن کے دیدار کو آن کھڑا ہوتا ہے۔ ویسے دلہن کسی خلائی مخلوق کے مشابہہ نہیں ہوتی، صرف یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے ،کتنی حسین ہے؟ کیسا جوڑا زیب تن ہے؟ گہنے کس قدر بھاری بھر کم ہیں؟ بولنے میں کتنی شیریں ہے اور کس قدر شرمیلا پن ہے؟ یہ سلسلہ کسی ایک دن کے دیدار تک محدود نہیں رہتا، تقریباََ ہفتہ دس دن آنا جانا لگا رہتا ہے کہ میک اپ کی تہہ اترنے کے بعد روپ کیسا ہے؟ معاملہ ہے افواہ ، rumours کا۔ جو محلے کی نئی نویلی دلہن کی طرح ہی ہوتی ہے ،جس کے بارے معلوم پڑتے ہی لوگوں میں تجسس جنم لینے لگتا ہے۔ لوگوں کی ذہنی جان کاری وہ شخص دیگر کی نسبت بہتر رکھتا ہے ،جو نفسیات کا مضمون پڑھنے میں شغف رکھتا ہو یا پڑھ چکا ہو۔ میرے محترم استاد سے نفسیات کے لیکچر کے دوران سوال کیا گیا۔ سر ، کہانی ایک ہوتی ہے مگر ہر شخص کے بیان کا انداز منفرد اور مختلف کیوں ہو جاتا ہے ؟ جواب بہت خوبصورت تھا۔ بولے، یقیناََ کہانی ایک ، چونکہ ہر سننے والا اسے آگے پہنچاتا ہے تو اس پورے عمل میں اپنے ذہن کے مطابق کچھ شامل کرتا ہے اور یہ عمل آگے بڑھتا ہوا، اس قدر تبدیل ہو جاتا ہے کہ کہانی کی اصل شکل کافی حد تک مسخ ہو جاتی ہے۔ افواہیں بھی کسی نا کسی طور نفسیات سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ یہ تحقیق ثابت کرتی ہے، اگر لوگوں کے اندر بے یقینی بڑھنے لگے تو افواہیں جنم لیتی ہیں۔ اضطراب پیدا ہو جائے، تو افواہیں جنم لیتی ہیں۔ اگر کسی خبر کا content اہم ہو اور یہ یقین ہونے لگے کہ یہ درست معلومات ہیں تو بھی افواہیں جنم لیتی ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ پہلو جب لوگوں کے اندر اپنی ذات کے امیج کو بہتر کرنے کی توقع ہو یا سوشل اسٹیٹس برقرار رکھنا مقصود ہو تو بھی افواہیں جنم لیتی ہیں۔ تازہ مثال کورونا ویکسین کی ہے جس کے عام ہونے سے قبل ہی افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ ایک معروف نیوز سائٹ پر بلاگ پڑھنے کو ملا ،جو کسی حد تک یہ دعوی کر رہا تھا ،کہ کورونا ویکسین لازم ضرور ہے لیکن اس کے نقصانات کا بڑا بوجھ خواتین کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ بہت حد تک اس بات کا خدشہ موجود ہے ،کہ اس کورونا ویکسین کو لگوانے کے بعد عورتیں بانجھ پن کا شکار ہو جائیں گی۔ ایک جانب کورونا وائرس نے مشکل میں ڈال رکھا ہے ،ایسے میں ویکسین سے متعلق اس قسم کی توہماتی تھیوریاں، لوگوں میں اضطراب کا باعث بنیں گی۔ یہ قصہ بھی ایسا ہی ہے ،جیسے پولیو مہم۔ جس کے دوران ایک طبقہ اس بات کو عام کرتا ہے کہ اس ویکسین کو پلانے کے بعد بچیوں کا مستقبل اس لئے تاریک رہے گا کیونکہ یہ ان کو بانجھ پن کی بیماری میں مبتلا کرتی ہے۔ حالانکہ آج تک ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کورونا ویکسین بارے بھی لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے باقاعدہ لیکچرز کی ضرورت آن پڑی ہے، ساتھ ہی توہمات پھیلانے والوں کو بے نقاب کرنے کی۔ افواہوں یا جھوٹی خبروں کی زد میں ہر طبقہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے کیا فنکار اور صحافی، کیا سیاست دان اور عالم۔ کوئی اس کی پہنچ سے باہر نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے ،کہ ٹارگٹ ہونے والا بھی کسی کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ یہ حق سبھی کو حاصل ہے، بدلتے وقت کے ساتھ خود بھی بدلے۔ کچھ عرصہ قبل تک سوشل سائٹس تھیں، جو تنقید کا محور اس لیے تھیں کہ سب سے زیادہ جھوٹی خبریں، افواہیں انہیں کے ذریعے نا صرف جنم لیتی تھیں بلکہ اتنا پھیلتی تھیں کہ سچ کا گمان ہونے لگتا تھا،مگر آج کل یہ کام ہر اس شخص نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ،جو بذات خود کوئی یو ٹیوب چینل چلا رہا ہے۔ ( یاد رہے تمام لوگ اس میں شامل نہیں۔ جیسے ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں، اسی طرح تمام کو ایک صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا)۔ بس میں سفر ہر ایک نے ایک بار تو لازمی کیا ہے ،جیسے بس کے اندر کھڑا شخص اپنا منجن بیچنے کے لئے ایک سو ایک طریقے بیان کرتا ہے ،اسی طرح اب بیش بہا ایسے یو ٹیوب چینل یہ کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح منجن بکے اور فالوورز کی تعداد بڑھے۔ بنا تحقیق ایسی معلومات، ٹپس یا طریقے شیئر کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ!سب سے زیادہ خطرناک حساس معاملات پر گفتگو یا کسی کی ذاتی زندگی پر تبصرہ۔ حساس معاملات پر غیر سنجیدہ گفتگو، دشمن کو موقع فراہم کرتی ہے ،بے بنیاد پراپیگنڈا ،جس کا استعمال دشمن ہر اس فورم پر کرتا ہے جہاں جہاں پاکستان کو کمزور کیا جا سکے۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:کسی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پہنچائے"۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یقیناََ کان،آنکھ اور دل سب سے باز پرس ہو گی"۔ اور یہ افواہیں ہی تو ہیں جس نے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ بے بنیاد پراپیگنڈا ہی تو ہے جو چند شرارتی عناصر پھیلا کر فرقہ واریت کی آگ کو سلگاتے ہیں۔ افسوس ناک امر تو یہ بھی ہے جب لوگ افواہوں کی آڑ میں اقلیتوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کر گزرتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات ہیں جب عوام نے خود ہی پنچایت لگائی اور فیصلہ صادر کر کے سزائیں دی۔ ہم سبھی افواہوں اور جھوٹی خبروں کی اس دکان کے گاہک ہے جس کا سچا جھوٹا ہر سودا بکتا ہے!